فرانس: 15 سال بعد بند مسجد کے دروازے کھو ل دیئے گئے

نائس شہر کے سا بق میئر نے مسجد پر پا بندی لگا ئی تھی نئے مئیر نے مجسٹریٹ کے حکم پر پا بندی اٹھا لی ، مسجد کھلنے پر مسلم کمیو نٹی میں خو شی کی لہر دوڑ گئی

پیر 4 جولائی 2016 10:39

پیر س(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔4جولائی۔2016ء)فرانس کے شہر نائس میں سعودی عرب کے تعاون سے تعمیر ہونے والی مسجد کے دروازے مقامی ٹاوٴن ہال کے ساتھ 15 سال کی کشمکش کے بعد کھول دیے گئے۔نکوئی اننور انسٹی ٹیوٹ کی مسجد کو مقامی پریفکٹ (یا مجسٹریٹ) فلپ پریڈل سے کھولے جانے کی اجازت ملی۔فلپ پریڈل نے شہر کے میئر کرسٹیئن ایسٹروسی کی جگہ لی ہے جبکہ ایسٹروسی اس مسجد کی تعمیر کے سخت مخالف تھے اور انھوں نے اپریل میں اس مسجد کو کھولے جانے سے باز رکھنے کے لیے فرانسیسی حکومت کے خلاف مقدمہ دائر کرنے کے لیے اجازت نامہ حاصل کر لیا تھا۔

انھوں نے مسجد کے مالک اور سعودی عرب کے اسلامی امور کے وزیر شیخ صالح بن عبدالعزیز پر ’شریعہ کی وکالت‘ کا الزام لگایا تھا جو کہ ’خطہ عرب کے تمام گرجا گھروں کو تباہ کرنے کی خواہش رکھتے ہیں۔

(جاری ہے)

‘ایسٹروسی سنہ 2008 سے وہاں کے میئر تھے انھوں نے اس پروجیکٹ کو غیر قانونی قرار دیا حالانکہ پروجیکٹ ان کے پیش رو کے زمانے میں سنہ 2002 میں شروع ہوا تھا۔

بہر حال وکیل اور مقامی مذہبی تنظیم کے سربراہ حسینی مبارک نے مسجد کے دروازے کھولے جانے کو ’حقیقی مسرت‘ سے تعبیر کیا ہے۔انھوں نے خبر رساں ادارے کو بتایا: ’لیکن اس جیت میں کوئی خود پسندی کا جذبہ کار فرما نہیں ہے۔ یہ قانون کی اور فرانس میں فرانسیسی اقدار کے تحت آزادی کے ساتھ اپنے عقیدے پر عمل کرنے کے حق کی جیت ہے۔دروازہ کھولنے کے وقت مسجد میں دس مسلمان داخل ہوئے۔

اس میں نماز کے لیے 880 افراد کے لیے گنجائش ہے۔ایک شخص عبدالعزیز نے، جو اپنے بیٹے محمد کے ساتھ وہاں عبادت کے لیے آئے انھوں نے بتایا: ’مسلمان اپنے گھر کے بجائے خدا کے گھر کو پسند کرتا اگر وہ خوبصورت ہو۔‘خواتین کے لیے مختص کمرے میں پڑوس سے آنے والی اماریہ نے کہا: ’آج ہم خوش ہیں۔ اس جگہ کو پاکر خوش اور مطمئن ہیں۔ ہم خود کو چھپاتے چھپاتے تھک چکے تھے۔ ہم کوئی چوہے تو نہیں۔‘مسجد کی تعمیر کی ابتداسنہ 2003 میں ہوئی تھی۔