Saam House - Article No. 1514

Saam House

سام ہاؤس - تحریر نمبر 1514

”آج کل ایک روح یہاں آرہی ہے۔ہم رات کو اسے محسوس کرتے ہیں۔“پروفیسر پر اسرار لہجے میں بولے۔بلاقی حیرت سے اسے دیکھنے لگا۔

جمعرات 5 ستمبر 2019

جاویدبسام
بلاقی دور درازقصبوں میں سامان پہنچانے کا کام کرتا تھا۔ایک دن وہ ہل ٹاؤن کے پاس سے گزر رہا تھا کہ ایک آدمی نے رکنے کا اشارہ کیا۔اسے قریبی قصبے میں جانا تھا۔بلاقی نے اسے بٹھالیا۔آدمی مقررہ جگہ پر اُتر اتوبلاقی آگے روانہ ہو گیا۔جب وہ گودام پر پہنچا ،جہاں اسے اپنا سامان اُتار نا تھا تو ایک اٹیچی کیس نظر آیا۔

اس نے اٹیچی کیس کھولا،تاکہ اس آدمی کا کوئی پتا وغیرہ مل سکے،مگر اس میں صرف ایک پرانی کتاب تھی۔اس نے سوچا،چلو یہ تو معلوم ہے ،وہ کہاں سے سوار ہوا تھا۔
بلاقی جب ہل ٹاؤن پہنچا تو رات ہو گئی تھی۔اس نے ایک ہوٹل والے کو آدمی کا حلیہ بتایا۔وہ بولا:”تم شاید پروفیسر سام کا پوچھ رہے ہو۔وہ پہاڑی پر رہتے ہیں، لیکن تم رات میں وہاں نہیں جا سکتے۔

(جاری ہے)

راستہ بہت خراب ہے۔“
بلاقی نے رات ہوٹل میں گزارنے کا فیصلہ کیا۔کھانا کھا کر وہ جلد ہی سو گیا۔آدھی رات کو اچانک کسی کھٹکے سے اس کی آنکھ کھل گئی۔اس نے ہلکی روشنی میں ایک سائے کو کھڑکی سے باہر کو دتے دیکھا۔وہ گھبراکر اُٹھا اور بتی جلائی تو اٹیچی کیس غائب تھا۔وہ کھڑکی میں آیا،مگر دور دور تک کوئی نہیں تھا۔صبح اس نے ہوٹل والے کو بتایا۔
وہ بولا کہ اس قصبے میں چوریاں بہت کم ہوتی ہیں۔بلاقی نے اس سے راستہ پوچھا اور پروفیسر سام سے ملنے چل دیا۔
پہاڑی راستہ بہت خراب تھا،جگہ جگہ گہرے کھڈے تھے ۔بلاقی کو اوپر ایک بہت پرانا اور بڑا گھر نظر آیا،جس پر سام ہاؤس لکھا تھا۔اس نے دروازے پر دستک دی۔ایک لڑکے نے دروازہ کھولا۔اس کی کمر میں کُب نکلا ہوا تھا۔
بلاقی نے کہا:”میں پروفیسر سے ملنا چاہتا ہوں۔

لڑکا کچھ کہے بغیر واپس پلٹ گیا۔کچھ دیر بعد پروفیسر صاحب دروازے پر آئے۔وہ بلاقی کو دیکھ کر چونکے اور بولے:”ہم شاید پہلے مل چکے ہیں؟“
”جی ہاں ،میں بلاقی کو چوان ہوں۔دو دن پہلے آپ نے میرے ساتھ سفر کیا تھا۔“
”اچھا ،اچھا تم میاں بلاقی ہو۔میں نے تمھاری بہت تعریف سنی ہے۔آؤ، اندر آجاؤ۔“
وہ اسے بیٹھک میں لے گیا۔
دونوں کر سیوں پر بیٹھ گئے۔
بلاقی نے انھیں بتایا:”آپ اپنا اٹیچی کیس میری گاڑی میں بھول گئے تھے۔“
”ہاں ،کیا تم وہ لے آئے؟“
”نہیں ۔“پھر بلاقی نے پورا واقعہ سنا دیا۔پروفیسر سوچ میں پڑ گئے۔
اچانک بلاقی کو دروازے کے پاس کسی کا سایہ نظر آیا۔
”کوئی ہماری باتیں سن رہا ہے۔“بلاقی نے مشکوک انداز میں کہا۔

”میرا ملازم پال ہو گا۔پال!اندر آجاؤ۔“پروفیسر نے آواز لگائی۔آہٹ ہوئی اور ملازم اندر آگیا۔
پروفیسر نے کہا:”چائے لے آؤ۔“
”نہیں رہنے دیں۔میں چلتا ہوں۔“بلاقی نے معذرت کی ،مگر پروفیسر نے زبردستی اسے روک لیا۔ملازم جلد چائے لے آیا۔جب وہ چلا گیا تو پروفیسر بولا:”پال سن لیتا ہے،مگر بول نہیں سکتا۔“
”بول نہیں سکتا․․․․․بول نہیں سکتا۔
“اچانک راہداری میں کوئی چلایا۔
بلاقی نے چونک کر پروفیسر کو دیکھا۔
”یہ میرا پالتو طوطا ہے۔اچھا میں تم سے ایک اہم مسئلے پر بات کرنا چاہتا ہوں۔میں نے تمھاری بہت تعریف سنی ہے۔“
”جی میں تو ایک معمولی کو چوان ہوں۔“بلاقی کھسیانا ہو کر بولا۔
”میں نے تمھارے کارنامے اخباروں میں پڑھے ہیں ۔تم روحوں کے بارے میں کیا جانتے ہو؟“
”بس اتنا کہ ہر جان دار میں ایک روح ہوتی ہے۔

”ہاں ،مگر روحیں اکثر انتقام لینے دنیا میں واپس آجاتی ہیں۔“
”ضرور آتی ہوں گی،مگر ایک غریب کو چوان اس بارے میں کیا کر سکتا ہے۔“بلاقی نے معصومیت سے کہا۔
”آج کل ایک روح یہاں آرہی ہے۔ہم رات کو اسے محسوس کرتے ہیں۔“پروفیسر پر اسرار لہجے میں بولے۔بلاقی حیرت سے اسے دیکھنے لگا۔
”میں تمھیں پوری بات بتاتا ہوں۔
کچھ دنوں پہلے میں نے ایک آدمی کے خلاف گواہی دی تھی۔اس نے قتل کیا تھا۔میں وقوعہ سے کچھ دور تھا۔جب دوسرے دن میں نے اخبار میں خبر پڑھی تو میرے ضمیر نے خاموش رہنا گوارا نہیں کیا۔میں پولیس کے پاس چلا گیا۔اسے گرفتار کر لیا گیا۔پھر ثبوت بھی مل گئے۔وہ مجھے غصیلی نظروں سے گھوررہا تھا۔خیر اسے پھانسی دے دی گئی۔پھر ایک دن مجھے وہ جلاد ملا،جس نے اسے پھانسی دی تھی۔
وہ میرا واقف تھا۔اس نے بتایا کہ قاتل آخری وقت میں بار بار یہ کہہ رہا تھا کہ میں پروفیسر کو نہیں چھوڑوں گا۔میں نے جلاد کی بات کو اہمیت نہیں دی ،لیکن کچھ دنوں بعد یہاں عجیب وغریب واقعات پیش آنے لگے۔“
نہیں چھوڑوں ،نہیں چھوڑوں گا۔“راہداری میں طوطا چلایا۔
”کیا میں یہ طوطا دیکھ سکتا ہوں؟“بلاقی نے پوچھا۔
”ہاں ضرور ۔
“پروفیسر نے کہا۔
دونوں اُٹھ کر باہر آئے ،جہاں ایک سر مئی رنگ کا بڑا سا طوطا پنجرے میں بند تھا۔بلاقی کو دیکھ کر وہ بولا:”لو وہ آگئے ،لو وہ آگئے!“
بلاقی کے چہرے پر مسکراہٹ آگئی۔و ہ بولا:”آپ کا طوطا بہت دلچسپ ہے۔یہ جو بولتا ہے،اس کا کوئی مقصد بھی ہوتاہے؟“
پروفیسر نے کہا:”نہیں ،بس جوسن لے ،وہ بولنے لگتا ہے۔

دونوں کچھ دیر طوطے کے پاس رکے رہے ،پھر کمرے میں آگئے ۔پروفیسر نے کہا:”میں چاہتا ہوں،تم آج رات یہاں گزارو،تاکہ اپنی آنکھوں سے دیکھ سکو کہ یہاں کیا ہورہا ہے۔“
”میرا رکنا بے کار ہے۔میں اس بارے میں کچھ نہیں جانتا۔“
”میری بات مانو۔میں تمھیں اس کا معاوضہ دوں گا۔“
”نہیں شکریہ ،میں چلتا ہوں۔“یہ کہہ کر بلاقی اُٹھا اور دروازے کی طرف بڑھا۔
ابھی وہ دو قدم ہی چلا تھا کہ اچانک اس کی گردن پر زور سے کوئی چیز لگی۔وہ چکر اکر گرا تو اسے پروفیسر کے ہاتھ میں ایک ڈنڈا نظر آیا،پھر وہ بے ہوش ہو گیا۔
بلاقی کو ہوش آیا تو وہ ایک اندھیرے کمرے میں قید تھا۔وہ کراہتا ہوا اُٹھا۔اسی دوران آہٹ ہوئی اور کھڑکی میں پروفیسر کا چہرہ نظر آیا۔
پروفیسر نے کہا:”میاں بلاقی!میں معافی چاہتا ہوں۔
مجھے یہ مجبوراً کرنا پڑا۔“
”آخر آپ چاہتے کیا ہیں؟“بلاقی نے کمزور آواز میں پوچھا۔
”صرف ایک رات یہاں رک جاؤ۔“
”اچھا ٹھیک ہے ۔مجھے سر درد کی دوا دیں۔“
’‘’ہاں ،ابھی دیتا ہوں۔“پروفیسر بولے اور دوالے آئے۔
”یہ بات مجھے ہمیشہ یاد رہے گی کہ ایک عجیب طوطے کے مالک نے مجھے بے قصور اندھیرے کمرے میں قید کر دیاتھا۔

”تم فکر نہ کرو۔میں اس کا ازالہ کردوں گا۔“
دوا کھا کر بلاقی کو نیند آگئی اور وہ شام تک سوتا رہا۔
شام کو پروفیسر نے دروازہ کھولا ۔وہ شرمندہ نظر آرہے تھے۔انھوں نے کہا :”مجھے معاف کر دینا دوست !آؤ ،میں نے تمھارے لیے بہت اچھی چائے بنوائی ہے۔“
دونوں نشست گاہ میں آبیٹھے ۔چائے واقعی بہت مزے کی تھی۔بلاقی کا موڈ ٹھیک ہو گیا۔

جلد ہی رات ہو گئی۔انھوں نے کھانا کھایا،پھر بیٹھ کر اِدھر اُدھر کی باتیں کرنے لگے۔جوں ہی رات کے بارہ بجے اچانک سرد ہوا کا جھونکا آیا۔بلاقی چونک اُٹھا ۔پروفیسر پر خیال نظروں سے بلاقی کو دیکھ رہا تھا۔دفعتاً راہداری میں آہٹ ہوئی اور ہر طرف عجیب سی خوشبو پھیل گئی۔ایسا لگ رہا تھا،کوئی چیز زمین پر گھسیٹی جارہی ہے۔پروفیسر نے بلاقی کاہاتھ پکڑا اور اُٹھ کھڑا ہوا۔
ہوا سائیں سائیں کررہی تھی۔ایسا لگتا تھا جیسے طوفان آنے والا ہے۔پھر شاخوں کے چٹخنے اور درختوں کے گرنے کی آواز یں آنے لگیں۔دونوں نے کھڑکی سے جھانکا ۔دیواروں پر سائے لہرا رہے تھے ۔بلب کی روشنی دھیمی ہو گئی تھی اور طوطا پھڑ پھڑا کر زور زور سے چیخ رہا تھا:”لو وہ آگئے ،لو وہ آگئے۔“
پروفیسر نے ایک دیوار کی طر ف اشارہ کیا۔بلاقی نے دیکھا تو اُچھل پڑا۔

دیوار پر نیلے رنگ کا ایک ہیو لا چل رہا تھا۔اس کا نچلا دھڑ غائب تھا۔بلاقی گھبرا کر پیچھے ہٹ گیا۔پھر دونوں کر سیوں پر بیٹھ گئے۔بلاقی نے گہری سانس لے کر سر گوشی کی :”آپ کا ملازم پال کہا ں ہے؟“
”اپنے کمرے میں ہو گا ۔“پروفیسر نے بتایا۔
بلاقی نے کہا :”چل کر دیکھیں۔“
دونوں دوسرے دروازے سے نکلے اورملازم کے کمرے میں گئے۔کمرا خالی تھا۔
(جاری ہے)

Browse More Moral Stories