Umeed Ki Kiran - Article No. 1192

امید کی کرن - تحریر نمبر 1192

سورج جاگ کر پوری آنکھیں کھولے زمین کو دیکھ رہا تھا ،تیز اور نکھری دھوپ کے باوجود چلتے ہوئے سردی محسوس ہوتی تھی

بدھ 26 ستمبر 2018

سمعیہ جاوید
سورج جاگ کر پوری آنکھیں کھولے زمین کو دیکھ رہا تھا ،تیز اور نکھری دھوپ کے باوجود چلتے ہوئے سردی محسوس ہوتی تھی۔دسمبر کا تیسرا ہفتہ تھا دور تک پھیلے سرسوں کے کھیت کے کنارے اربات اپنی سوچوں میں گم چہل قد می کر رہا تھا کہ اچانک اُسکی نظر بچوں پر پڑی جو ٹیوب ویل کے قریب دنیا کی حقیقت سے نا آشنا اپنی مستی میں گم تھے۔ارباب کو نہ چاہتے ہوئے بھی اپنے بچپن کی وہ تلخ حقیقت یاد آگئی جسے وہ لاکھ بھلاتا مگر وہ اُسے برابر یاد آتی ۔

خیالوں کی دنیا میں گم ارباب کو اپنے بچپن کے وہ دن یاد آگئے جب اُسکا گاؤں دہشتگردی کی زد میں تھا ۔2000ء کی بات ہے جب ارباب سات وسال کا تھا اور وہ اپنے گھر والوں کے ہمراہ کشمیر کی خوبصورت وادی نیلم میں رہتا تھا وہ لوگ ایک لکڑی کے بنے مکان میں رہتے تھے ۔

(جاری ہے)

صبح کا وقت تھا ارباب اور اُسکے والدین سکون سے سو رہے تھے کہ اچانک باہر سے زور دار دھماکے کی آواز سنائی دی جس سے سب کے دل دہل گئے ۔

ارباب کے والد نے دروازہ کھول کر دیکھا تو ہر جانب آگ ہی آگ تھی۔ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے آگ کی ندی بہہ رہی ہو۔ہر جانب لوگ بچاؤ کیلئے اِدھر اُدھر بھاگ رہے تھے ۔ ایک شخص سے معلوم ہوا کہ گاؤں پر دہشتگردوں نے حملہ کر دیا ہے ۔

ارباب کے والد اُسکو اور اُسکی والدہ کو لے کر نکلے تا کہ گاؤں کے کسی محفوظ مقام پر منتقل ہو سکیں مگر ایسا نہ ہو سکا۔

ارباب کے والدین پر حملہ ہوا جس میں ارباب کے والد ،اُسکا اور اُسکی والدہ کا دفاع کرتے ہوئے اللہ کو پیارے ہو گئے۔اُسکی والدہ کو بھی گولی لگ گئی اور وہ بھی چل بسیں ۔ارباب یہ منظر دیکھ کر حواس باختہ ہو گیا اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔گاؤں میں ہر جانب لا شیں ہی لا شیں نظر آرہی تھیں ۔دہشتگردوں کا یہ گروہ ارباب کو اپنے ساتھ لے گیا۔
اُسکے ساتھ وہاں جانوروں جیسا سلوک کیا گیا جس سے اُسکی ہمت اور حوصلہ جواب دے گیا۔
ارباب سے دن رات کام کروایا جاتا اور اکثر دو وقت کا کھانا بھی میسر نہ آتا ۔وہ رات کے اندھیرے میں اپنے والدین کو یا د کرکے رویا کرتا تھا ۔ایک دن وہ اپنے والد کو یاد کر رہا تھا کہ اُسے اپنے والد کی بات یاد آئی کہ ”امید کا دامن کبھی مت چھوڑنا ۔بس اگلے ہی دن اُسکے اندر نئی امید کی کرن اُجاگر ہو گئی۔اُس نے وہاں سے بھاگ نکلنے کا سوچا ۔وہاں سے بھاگنا بہت مشکل کا م تھا مگر نہ ممکن نہیں ۔
دو پہر کو کھانے کے بعد جب سب لوگ آرام کر رہے تھے تو ارباب دبے پاؤں وہاں سے بھاگ نکلا اور پیچھے مڑکر نہ دیکھا جب وہ بھاگتے ہوئے ایک گاؤں میں پہنچا تو وہ تھک چکا تھا اور بھوک سے نڈھال ہو رہا تھا مگر ارباب کی قسمت نے اِس بار بھی اُس کا ساتھ نہ دیا اور وہ ایک فقیر کے ہاتھ لگ گیا ۔اس نے بھی ارباب کے ساتھ بدتر سلوک کیاوہ اُسے وہاں سے گھومتا گھومتا بھیک منگواتا پشاور لے گیا وہ اُسے بہت مارتا تھا مگر ارباب نے امید کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا۔
اُس نے ایک منصوبہ بنایا ،جب اُسکا مالک سو رہا تھا تو اُ س نے موقع کا فائدہ اُٹھایا اور کچھ پیسے اُٹھا کر وہ اُ س ظالم شخص کے چنگل سے بھاگ نکلا۔اُس نے لاہور کی ٹکٹ خریدی اور ٹرین میں سوار ہو کر لاہور پہنچ گیا ۔چند دن تو وہ لاہور میں بھٹکتا رہا اور مانگتا رہا پھر ایک روز سڑک پر اچانک اسکی ملاقات اُسکے ماموں سے ہوگئی ۔

ارباب اور اُسکے ماموں کی خوشی کی انتہا نہ رہی اور وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا ۔

ارباب کے ماموں اُسے اپنے ساتھ گھر لے گئے ۔ارباب کے ماموں نے کہا؛مجھے معلوم ہوا تھا کہ اُس دہشتگرد حملے میں تم بھی اپنے والدین کے ساتھ چل بسے ہو لیکن اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ تم صحیح سلامت ہو۔ارباب نے اپنے آپ بیتی بیان کی اور ماموں نے پیار سے اُسے گلے لگالیا۔ارباب کے ماموں نے اُسے بہترین سرکاری سکول میں داخل کروایا اور اُسے اچھی تعلیم دلوائی۔
اُس نے اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور ایک قابل پویس آفیسر بن گیا ۔وہ اپنے جیسے دوسرے بے سہارا بچوں کو انصاف دلواتا ۔یہ سب ترقی ارباب کواُسکی اُمید کی بدولت ملی کیونکہ اُس نے اُمید کا دامن نہ چھوڑا اور اللہ کی ذات پر بھروسہ رکھا ۔ارباب کو پیچھے سے اُسکے دوست نے آواز دی اور وہ اپنے خیالوں کی دنیا سے باہر نکلا اور اللہ کا شکر ادا کیا۔اتنے میں اُسکا دوست اُسکے پاس آیا اور وہ دونوں گھر کی جانب چل دےئے۔

Browse More Moral Stories