Bachon Ke Liye Hifazati Tikon Ka Course Nagaraiz - Article No. 1222

Bachon Ke Liye Hifazati Tikon Ka Course Nagaraiz

بچوں کے لئے حفاظتی ٹیکوں کا کورس ناگریز - تحریر نمبر 1222

بیماری چھوٹی ہی کیوں نہ ہو؟ علاج سے گریز اسے بڑا بنا دیتا ہے۔ ایک زمانہ تھا بیماریوں کی تشخیص کے جدید طریقے ایجاد نہ ہوئے تھے اور وباء پھیلتی تو سینکڑوں‘ ہزاروں نہیں لاکھوں کی جان لے کرٹلتی تھی

منگل 6 نومبر 2018

الطاف ا حمد خان مجاہد
بیماری چھوٹی ہی کیوں نہ ہو؟ علاج سے گریز اسے بڑا بنا دیتا ہے۔ ایک زمانہ تھا بیماریوں کی تشخیص کے جدید طریقے ایجاد نہ ہوئے تھے اور وباء پھیلتی تو سینکڑوں‘ ہزاروں نہیں لاکھوں کی جان لے کرٹلتی تھی‘ لیکن اب سائنس نے شرح اموات گھٹا دی ہے۔ مہلک اور خطرناک ترین امراض سے بچائو کی ویکسین مارکیٹ میں موجود ہے اور چند عشروں قبل تک لاعلاج تصور کئے جانے والے امراض سے تحفظ کیلئے ویکسی نیشن کوضروری تسلیم کیا جاتا ہے۔

جان لیوا یا معذور کردینے والے متعدد امراض سے محفوظ رہنے کیلئے ادویہ موجود ہیں۔ اسی لئے اقوام متحدہ کے ادارہ صحت نے بین الاقوامی سطح پر بچوں کو خطرناک بیماریوں سے بچانے کیلئے کئی پروگرام مرتب کئے ہیں۔

(جاری ہے)



پاکستان میں 1978ء سے زندگی کے پہلے برس میں بچوں کو 6 متعدی بیماریوں سے بچائو کی ویکسی نیشن کی جارہی ہے۔ ان کا شیڈول یا نظام الاقوات کچھ اس طرح سے ہے‘ بوقت پیدائش پہلا ٹیکہ تپ دق یا ٹی بی کا لگایا جاتا ہے اور پولیو سے محفوظ رکھنے کیلئے دوا کے قطرے پلاتے ہیں۔

6 ہفتے بعددوسرا ٹیکہ خناق‘ کالی کھانسی اورتشنج سے بچائو کیلئے لگاتے ہیں اور پولیو سے بچائو کے قطرے بھی پلائے جاتے ہیں۔ 10 ہفتے بعد پھر خناق‘ کالی کھانسی اورتشنج سے بچانے کا ٹیکہ اورپولیو کے قطرے دئیے جاتے ہیں۔ اسی طرح ان ہی بیماریوں سے تحفظ کی چوتھی ویکسی نیشن 14 ہفتے کے بعد پھر کی جاتی ہے اور 9 ماہ کی عمر میں پہنچنے پر خسرہ سے بچائو کا ٹیکہ لگایا جاتا ہے۔
آج کل خسرہ سے بچائو کی قومی مہم چلائی جارہی ہے‘ انسانی جسم کے مدافعتی نظام میں کمزوری سے بیماری یا اس کے جراثیم شیر خوار‘ نومولود یا کمسن اور کم عمر بچوں کو زیادہ نشانہ بناتے ہیں۔ پاکستان میں بچوں کو حفاظتی ٹیکے لگانے کی مہمات پورے سال جاری رہتی ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس رجحان کو سو فیصد کرنے سے پولیو‘ خسرہ و دیگربیماریوں کو بآسانی کنٹرول کیا جاسکتا ہے‘ ویسے بھی حکومت نے نومولود سے 2 برس تک کی عمر کے بچوں کو خطرناک امراض سے بچائو کی مفت ویکسی نیشن کا انتظام کیا ہے‘ صرف سندھ میں ایسے مراکز کی تعداد 15 سو سے زائد ہے‘ جہاں حفاظتی ٹیکے مفت لگائے جاتے ہیں۔
بلاشبہ خسرہ متعدی مرض ہے۔ اس کا زیادہ ترنشانہ ترقی پذیر یا پسماندہ ملک ہیں‘ جہاں اسے ہلاکتیں بھی عام ہیں ۔ عموماً اس کا نشانہ کم عمر یا کمسن بچے ہی بنتے ہیں‘ جن کی عمریں 9 ماہ سے 5 برس تک ہوں‘ خسرہ کابنیادی سبب ایک وائرس ہے اور اس سے بچائو ممکن ہے‘ یہ صرف ان بچوں کو ٹارگٹ کرتا ہے جو حفاظتی ٹیکے نہ لگوا سکا ہو۔ ترقی یافتہ ملکوں میں کبھی کبھار ہی خسرہ کسی بچے کی موت کا سبب بنتا ہے۔
عالمی اعدادو شمار کا جائزہ لیںتو 3 برس قبل تک اس سے مرنے والے یا متاثرہ بچوں کی تعداد 67 ہزار 524 تھی‘ لیکن حفاظتی مہمات چلانے کے باعث 2016ء میں یعنی اگلے برس ہی یہ تعداد بمشکل 16 ہزار 8 سو 46 رہ گئی۔ ماہرین صحت کہتے ہیں کہ رپورٹ شدہ بچوں کی تعداد حقیقی مریضوں سے کم ہے کیونکہ یہ تعداد ان مریضوں کی ہے جو کسی مرکز صحت پرعلاج کیلئے گئے تھے۔
خسرہ کی علامات میں بخار اور کھانسی ہیں‘ اس کے ساتھ ساتھ آنکھوں کاسرخ ہونا‘ ناک سے پانی بہنا اور جسم پرسرخ نشان بھی اس مرض کا پتہ دیتے ہیں۔ خسرہ کو بخار اور کھانسی کا علاج کرکے کنٹرول کیا جاتا ہے اور مریض کو دیگر افراد خانہ سے علیحدہ کرکے باقی لوگوں کو اس عارضے سے بچائو کی پیش بندی بھی کی جاتی ہے۔ خسرہ کا وائرس نظام تنفس کو ہٹ کرتا ہے اوربہت شدت کے ساتھ پھیلتا ہے۔
مریض کی کھانسی ا ور ناک و منہ سے نکلنے والا پانی دیگر افراد کو جو قریب ہوں اور اس ہوا سے سانس لے رہے ہیں تو براہ راست متاثر کرتا ہے اور اگر حفاظتی ٹیکے نہ لگے تو ا فیکٹ ہونے کا خدشہ اور خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ خسرہ کی پیچیدگیوں سے ڈائریا‘ نمونیہ‘ آنکھوں کے امراض‘ دماغی سوزش ا ور جسمانی کمزوری کے عوارض بھی گھیر لیتے ہیں اور اگر بچے خوراک کی کمی کا شکار ہوں تو یہ بیماریاں جان لیوا بھی ثابت ہوتی ہیں۔ پاکستان میں خوراک کی کمی کا مسئلہ بھی پسماندہ اور دور افتادہ علاقوں میں موجود ہے۔ اس لئے ماہرین صحت بتاتے ہیں کہ یہاں ہر بچے کو خسرہ سے بچائو کے دو ٹیکے لگنے چاہئیں‘ پہلا ٹیکہ 9 ماہ اور دوسرا 12 سے 15 ماہ کی عمر میں لگایا جائے۔

Browse More Mutafariq Mazameen