Bachon Mein Cancer Ka Aalmi Din - Article No. 1326

Bachon Mein Cancer Ka Aalmi Din

بچوں میں کینسرکاعالمی دن - تحریر نمبر 1326

پھول اور ان کی خوشبو ماحول پراثرانداز ہوتی ہے اسی لیے پھولوں کی نشوونما کی نگہداشت پر خصوصی توجہ ہی جاتی ہے بالکل یہی صورت حال بچوں کی ہے ان کی بودباش اور پرورش کے حوالے سے دنیا میں آنے کے بعد ہی نہیں ان کے دنیا سے آنے سے قبل احتیاطی تدابیر کی ضرورت ہے۔

پیر 18 مارچ 2019

زاہد انجم
پھول اور ان کی خوشبو ماحول پراثرانداز ہوتی ہے اسی لیے پھولوں کی نشوونما کی نگہداشت پر خصوصی توجہ ہی جاتی ہے بالکل یہی صورت حال بچوں کی ہے ان کی بودباش اور پرورش کے حوالے سے دنیا میں آنے کے بعد ہی نہیں ان کے دنیا سے آنے سے قبل احتیاطی تدابیر کی ضرورت ہے۔ ان خیالات کا اظہار بچوں میں کینسر کے عالمی دن پر لاہور جنرل ہسپتال میں ہونے والے سیمینار میں مقررین نے کیا۔

سیمینار سے خطاب پرنسپل بی جی ایم آئی پروفیسر ڈاکٹر محمد طیب نے کہا’’ کینسر کاعلاج بہت مہنگا ہے۔ اس لیے مخیر حضرات کو چاہئے وہ پھولوں جیسے ننھے بچوں کی زندگی بچانے، ان کی نشوونما اور بودو باش کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔ والدین کو بھی اپنی اگلی نسل کی بقا کے لیے ذمہ داریاں پوری کرنے کی ضرورت ہے۔

(جاری ہے)

دوران حمل میڈیکل چیک اپ کرانا چاہئے تاکہ کسی بچے کے دنیا میں آنے سے قبل اس کی بیماری کا سدباب کیا جا سکے۔

کیا خبران بچوں میں سے کسی نے کل کو ملک کی باگ ڈور سنبھالی ہو۔پنجاب میں صحت کارڈ غریب اور ضرورت مندوں کے لیے امرت دھار ہے۔ اس کا رڈ سے کینسر، دل کی سرجری اور دیگر بیماریوں کے مریض فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا بچوں میں کینسر کی روک تھام کے لیے شعوری بیداری کی ضرورت ہے۔ ایسے مریضوں کی دلجوئی اور حوصلہ افزائی ناگزیر ہے تاکہ مایوسی سے بچ کر جینے کی امنگ سے سرشار ہو سکیں۔
لاہور جنرل ہسپتال میں بچوں کا کینسر وارڈ پروفیسر ڈاکٹر آغا شبیر علی کی سربراہی میں قائم کیا گیا۔ یہاں زیر علاج صحت یاب ہونے والے20 مریضوں کو اس موقع پر تحائف دئیے گئے۔یہاں یہ امر قابل ذکر ہے بچوں کے کینسر وارڈ میں ایک خصوصی کچن قائم ہے جہاں بچوں کی خوراک اُن کی بیماری کے تقاضوں اور حفظان صحت کے اصولوں کے مطابق تیار کی جاتی ہے۔ بچوں کی ایک اٹینڈنٹ خاتون کو راشن فراہم کردیا جاتا ہے اور وہ صفائی اور احتیاط سے کھانا تیار کرتی ہے۔
بچہ وائرس پانچ سال سے قائم اس کینسر وارڈ میں 10 بستر ہیں۔‘‘ ڈاکٹر عافیہ عارف نے اس موقع پر بتایا: کینسر کا شکار ہونیوالے بچوں میں سے زیادہ تر کا تعلق سرگودھا، ملتان، میانوالی اور بہاول پور کے اضلاع سے ہے۔ زہر آلود کھانوں، ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات کے علاوہ بچوں میں جسمانی تبدیلیوں کا سنجیدگی سے نوٹس لینا چاہئے اور ایسی صورت میں فوری طور پر ڈاکٹرز سے رجوع کرنا چاہئے۔
4 سے 5 سال کے علاج سے بچوں کو اس مرض سے نجات ممکن ہے۔ باہمت والدین بچوں کا علاج یک سوئی اور صبر کے ساتھ کراتے ہیں۔ والدین ہمت نہ ہاریں ان کے بچے شفایاب ہو سکتے ہیں۔ ڈاکٹر آغا شیر علی ایک درد دل رکھنے والے مسیحا ہیںانہوں نے نرسنگ کو کینسر کے مریض بچوں کی نگہداشت کے لیے خصوصی تربیت سے ہمکنار کیا ہے تاکہ ان درماندہ بچوں کو محبت ، خوش اخلاقی اور بہترین تیمارداری حاصل ہوسکے۔

Browse More Mutafariq Mazameen