EID Mela Or Bachoon K Mashagil - Article No. 816
عید میلہ اور بچوں کے مشاغل - تحریر نمبر 816
بچوں کی اکثریت چاند رات نہیں سوتی،بازاروں میں عجیب سماں ہوتا ہے ہر طرف روشنی ہی روشنی،خریداری مکمل کرنے کے بعد بھی گھر جانے کو جی نہیں چاہتا بچے تو چاند رات کو ہی عید سمجھتے ہیں اوروالدین سے چپس،بسکٹ،کولڈڈرنک اور آئس کریم کی فرمائش کرتے ہیں
جمعرات 16 جولائی 2015
عید الفطر کی آمد آمد ہے ، جوں جوں عید قریب آ رہی ہے بازاروں میں خریداری کازور بڑھ رہا ہے، رات گئے تک دْکانیں کھلی رہتی ہیں،بڑوں سے زیادہ بچوں کا رش ہے، اس خوشی کے موقع پر دْکانداروں کی خوب چاندی ہوتی ہے۔ بچوں کی اکثریت چاند رات نہیں سوتی،بازاروں میں عجیب سماں ہوتا ہے ہر طرف روشنی ہی روشنی،خریداری مکمل کرنے کے بعد بھی گھر جانے کو جی نہیں چاہتا بچے تو چاند رات کو ہی عید سمجھتے ہیں اوروالدین سے چپس،بسکٹ،کولڈڈرنک اور آئس کریم کی فرمائش کرتے ہیں،اس موقع پر بچے عید کی خریداری کے ساتھ ساتھ چٹ پٹی اشیا سے بھی لطف اندوز ہوتے ہیں۔ عیدالفطر اور دوسرے مذہبی و قومی تہواروں کے موقع پر اپنے عزیزوں اور ساتھیوں کے بغیر یہ خوشیاں ادھوری معلوم ہوتی ہیں۔
(جاری ہے)
خوشی کے موقع پروہ عزیز رشتے دار جوساتھ چھوڑ چکے ہیں بہت یادآتے ہیں اوران کی کمی شدت سے محسوس کی جاتی ہے۔
عید نام ہے خوشی کا،خوشیاں باٹنے کا،مستحقین کو اپنی خوشیوں میں شریک کرنے کا۔عید کا سورج بے شمار خوشیاں لے کر طلوع ہوتا ہے خوشی کے اس موقع پر گھر کے تمام افراد صبح سویرے اٹھ جاتے ہیں، میٹھی سویاں تیار کی جاتی ہیں جبکہ چھوٹے بچے نئی شلوار قمیص پہنے اپنے پاپا اوربڑے بھائیوں کے ہمراہ نماز عید کی ادائیگی کے لئے عید گاہ کا رْخ کرتے ہیں۔
یوں تو ہر اسلامی اور قومی تہواروں پر بچوں کا جوش و جذبہ دیدنی ہوتا ہے لیکن عیدالفطر کے پرمسرت موقع پر یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہوتا کہ آج عیدالفطر ہے جسے چھوٹی عید اور میٹھی عید بھی کہا جاتا ہے،گلی محلوں کے بچے رنگ برنگے لباس پہنے آپس میں عید کی باتیں کررہے ہوتے ہیں،جب کہ مین روڈز (بڑی سڑکوں) پر ویرانی چھائی ہوتی ہے کیونکہ دیہی علاقوں میں رہنے والے ہمارے بہن بھائی عید منانے کے لئے اپنے اپنے گاوٴں چلے جاتے ہیں،ہاں البتہ شام کے اوقات میں زیادہ رش اس لئے ہو جاتا ہے کہ بچے اپنے والدین کے ہمراہ تفریحی مقامات یا پارکوں کارْخ کرتے ہیں پارکوں میں زیادہ تر رش بچوں کا ہی ہوتا ہے گویا عید کے دنوں میں پارکوں اور ان سے ملحقہ سڑکوں پر تل دھرنے کو جگہ نہیں ملتی بچے چڑیا گھر،گلشن اقبال پارک، لارنس گارڈن اور دوسرے تفریحی مقامات پر جاتے ہیں مختلف ٹولیوں کی صورت میں یہ بچے کبھی جھولا جھول رہے ہوتے ہیں کبھی جھیل میں بوٹ کی سیر تو کبھی ٹرین میں بیٹھے ہوتے ہیں جھولے، جمپنگ کیسل ،اونٹ، گھوڑے کی سواری اور رنگ برنگی قمقموں سے سجی گاڑیوں کی سواریاں ،کھانے پینے کے سٹالز، اگر بچوں کو تفریح کیلئے یہ سب چیزیں ایک ہی جگہ مل جائیں تو سمجھو ان کی تو جیسے عید ہی ہوگئی۔عید نام ہے خوشیوں کااوراپنی خوشیوں میں دوسروں کو شریک کرنے کا۔رمضان المبارک کے بابرکت مہینے کے بعد اللہ تعالیٰ کی طرف سے مسلمانوں کے لئے عیدالفطر کی صورت میں ایک انعام دیا جاتا ہے جس کا اہتمام پوری دنیا کے مسلمان بڑے شوق سے کرتے ہیں۔ عید کا انتظار بڑوں کی نسبت بچوں کو زیادہ رہتا ہے۔ کیونکہ انہوں نے اپنے والدین اور قریبی رشتے داروں اور بڑ ے بہن بھائیوں سے عیدی وصول کرنی ہوتی ہے یوں تو عام دنوں میں بھی بچوں کو والدین سے پاکٹ منی (جیب خرچ )ملتا ہے لیکن جو خوشیاں یا جو مزہ عیدی کی رقم وصول کرنے میں ہے وہ کسی اور میں نہیں،،ماضی میں تو عین عید کے روز عیدی دی اور وصول کی جاتی تھی لیکن آج کل کے جدید دور میں عید سے قبل ہی رشتہ داروں میں تقسیم کر دی جاتی ہے۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کئی تبدیلیاں بھی ہوئی ہیں دس پندرہ سال قبل تک عید کی مبارک باد عید کارڈ کے ذریعے دی جاتی رہی۔رشتہ داروں عزیزواقارب جوکہ دور دراز کے علاقوں میں رہتے تھے انہیں عید کارڈ روانہ کر دیئے جاتے تھے یہ سلسلہ کئی برسوں تک چلا آرہا تھا اوراب یہ کام موبائل فون اور انٹرنیٹ کے ذریعے کیاجاتا ہے۔
عید کے روزشہر کے مختلف علاقوں میں اونٹ ،گھوڑے ، جھولے والے مختلف علاقوں کی گلیوں کا رخ کرتے ہیں۔ گلی محلوں میں اونٹ اور گھوڑوں کی سواری اور جھولے لینے اور رنگ برنگی گاڑیوں میں بیٹھنے کیلئے بچوں کا ایک سیلاب امڈ آتا ہے۔ علاقے بھر کے بچے رات گئے تک او نٹوں اور گھوڑوں کی سواری سے لطف اندوز ہوتے رہتے ہیں۔یہ منظر دیکھ کر کسی میلے کا گمان ہونے لگتا ہے ہر جھولے، اونٹ اور گھوڑے پر بچوں کا رش ہی رش ہر کوئی اپنی باری آنے کیلئے بیتاب، یہی نہیں بچوں کے ساتھ ان کے والدین بھی اس عید میلے میں برابر کے شریک ہو تے ہیں اور بچوں کو تفریح اور خوش دیکھ کر گویا جیسے وہ خود بھی پھولے نہ سما رہے ہوں،آجکل تو بچوں کی ہرروز عید ہوتی ہے اپنی مرضی سے سوتے اور جاگتے ہیں اس لئے کہ موسم گرما کی تعطیلات ہیں۔گرمیوں کی چھٹیاں اور رات گئے تک تفریح ،موج مستیاں اورصبح تاخیر سے جاگناآج کل زیادہ تر بچوں کا یہی معمول ہے۔
Browse More Mutafariq Mazameen
جانوروں کی بولی
Janwaroon Ki Bolli
ابو علی کی ٹوپی
Abbu Ali Ki Topi
تربیت کی اشد ضرورت
Tarbiyat Ki Ashad Zaroorat
امتحان میں کامیاب
Imtehan Main Kamyab
عمل سے بنتی ہے زندگی
Amaal Se Zindagi Banti Hai
گدے کے سینگ
Gadhe K Seengh
Urdu Jokes
استاد شاگرد سے
Ustad Shagird se
شوہر
shohar
بڑھاپا
burhapa
کسی فقیر نے
Kisi faqeer nay
ایک شخص
Aik shakhs
سیاح
Siah
Urdu Paheliyan
اک شے کے ہیں پوت ہزار
ek shai ke hen poot hazar
اک شے جب بھی ہاتھ میں آئے
ek shay jab bhi hath me aye
بازو اور ٹانگیں ہیں آٹھ
bazu or tangen he aath
مار پٹی تو شور مچایا
maar piti tu shor machaya
خشکی پر نہ اس کا پاؤ
khuski par na us ka paon
پہنچ جائے انساں خدا کے جو گھر
pahunch jaye insan khud ke jo ghar