روزانہ کئی کئی گھنٹے سوشل میڈیاپر گزارنے والے افراد خلل دماغ کا شکار بھی ہوسکتے ہیں۔ زیادتی چونکہ ہر چیز کی بری ہوتی ہے اس لیے ایسے افراد بھی خبط میں مبتلا ہوسکتے ہیں۔ اکیڈمک سروے کے مطابق ہر پانچ میں سے ایک فرد نفسیاتی مسائل میں مبتلا نظر آتا ہے۔ اگر چہ خطرے کی گھنٹی بج رہی ہے لیکن بظاہر کوئی ٹھوس ثبوت نہیں کہ آپ بھی اس خطرے سے دوچار ہوں ۔
ماہر نفسیات کا کہنا ہے کہ نوجوان طبقے میں یہ تعداد ڈرامائی انداز سے بڑھ رہی ہے کیونکہ ان میں سوشل میڈیا کے استعمال کا رجحان بہت زیادہ پایا جاتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا نے قوم کے ناخوش بچوں کی تعداد میں اضافہ کر دیاہے۔
کنگز کالج لندن کے کلینکل سائیکالوجی کے پروفیسر فلیپا گریٹی کا کہنا ہے کہ ڈیجیٹل ورلڈ نے معاشروں میں تبدیلی پیدا کر دی ہے، جو ہمیں مستقل یہ احساس دلاتی ہے کہ ہم زیرِ نگرانی ہیں، ہمیں دیکھا اور جانچہ جا رہا ہے۔
(جاری ہے)
ہماری حرکات و سکنات پر نظر رکھی جا تی ہے اور نہ جانے کس لمحے ہمیں ریکارڈ کر کے ہمیں انٹرنیٹ پر پیش کر دیا جاتا ہے، اس خوف یا احساس نے لوگوں میں بے چینی اور اضطراب پیدا کر دیا ہے ۔ آپ خواہ کسی سڑک پر ہوں یا پارک ، اسپتال، شاپنگ سنٹر، تعلیمی اداروں یا کسی گھر میں ہر جگہ آپ کی نگرانی کی جاتی ہے۔ ہر وقت کی سیلفیاں اور ویڈیوز بنانا اور انہیں بطور تفریح یا انتقاماََ ڈاﺅن لوڈ کر دینا یقیناََ ذہنی اذیت کا باعث بنتا ہے۔
میٹل ہیلتھ چیر یٹی کے مطابق دماغی خلل کا تعلق شدید خیالات کا پیدا ہونا ہے وہ فریب نظر یا واہمے انسان کو پریشان کر دیتے ہیں۔
Privention of Cruelty to children نے سوشل میڈیا کو مورد الزام ٹھہراتے ہوئے کہا تھا اس نے بچوں میں تشش کا رجحان پیدا کیاہے۔ 2015 سے 16 کے درمیان انگلینڈ اور ویلز کی 8 سے 11 سال کے 188,18 بچے داخل کئے گئے جنہوں نے خود سوزی کی تھی۔ یہ رویئے کم نہیں ہو رہے بلکہ ہر سال ایسے بچوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔
چیریٹی کا کہنا ہے کہ گزشتہ برس 471,18 بچوں کو کاﺅنسلنگ سیشنز دی گئی تھیں۔ ماہر نفسیات کا کہنا ہے کہ بچوں کی ہزاروں ریسیو کی گئی کالز سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ بچور قوم ہم میں افسردا بچوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ ہمیں علم ہے کہ یہ سب سوشل میڈیا کے مسلسل دباﺅ کی وجہ سے ہے۔ وہ اب اپنے دوستوں کے ساتھ آن لائن رہتے ہیں اور دباﺅ کی وجہ سے نہ تو فرار اختیار کرتے ہیں او نہ رابطہ منقطع کرتے ہیں اور وہ اس دباﺅ کو روزانہ کی بنیادوں پر محسوس کرتے ہیں۔
یہ ایک عجیب و غریب ساذہنی دباﺅ ہے جو سمجھ سے بالا تر ہے کہ دور بیٹھے دوستوں کا اس قدر دباﺅ ہوتا ہے کہ وہ نیٹ نہیں بند کر سکتے۔ بہر حال پروفیسر گریٹی نے اس ریسرچ کے پروجیکٹ پر 3.1 ملین پاﺅنڈ خرچ کئے۔ ان کا مقصد اس کیفیت میں مبتلا افراد کی مدد کرنا ہے۔ ان کی ٹیم نے ایک App تیار کی ہے۔ جب متاثرہ شخص بے آرامی یا بے چینی میں مبتلا ہوتا ہے تو وہ App اسٹارٹ کر دیتے ہیں جس میں بلبلوں کی سیریز دکھائی دیتی ہے۔
ان میں مختلف سطریں نظر آتی ہیں جیسا کہ وہ مجھے پسند نہیں کرتے یا لوگ مجھے دیکھ رہے ہیں۔ اسی صورت میں وہ ایک بلبلے کو پریس کر دیتا ہے اور اس جگہ دوسرا بلبلہ نمودار ہوتا ہے جو کہتا ہے کہ وہ غالباََ مجھے دیکھ نہیں رہے اور اگر دیکھ بھی رہے ہوں تو کیا ہوا میں اس کی پرواہ نہیں کرتا۔ میں ان سے زیادہ بہادر اور مضبوط ہوں اور ہر طرح کے حالات کا مقابلہ کر سکتا ہوں ۔ اس طرح کی ایک ایپ معمولی نوعیت کے خبط میں مبتلا افراد کے لیے بھی تیار کی جارہی ہے۔
انٹرنیٹ ہو یا سوشل میڈیا جب تک محتاط انداز میں استعمال نہ کیا جائے یہ ایجاد سہولت کے بجائے زحمت بن سکتی ہے اور ہمیں مہذب معاشرے کے قیام کے لیے شعور کی ضرورت ہے۔