ماہر نفسیات نے خاتون کی خواہش پر اسے اندھا کر دیا۔ انتہائی عجیب کہانی

Fahad Shabbir فہد شبیر ہفتہ 3 اکتوبر 2015 21:12

ماہر نفسیات نے خاتون کی خواہش پر اسے اندھا کر دیا۔ انتہائی  عجیب کہانی

لندن(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔3اکتوبر۔2015ء)بہت سے افراد کے لیے اندھا ہونا ایک بھیانک خواب سے کم نہیں ہوتا۔ لوگ اپنی معمولی بیماریوں کے علاج کے لیے سو طرح کے جتن کرتے ہیں۔ مگر جوئل شوپنگ کے لیے اندھا ہونا تو ایک خواب تھا، جس کے پورا ہونے پر وہ بہت خوش ہے۔ جوئل باڈی انٹیگریٹی آئیڈنٹیٹی ڈس آرڈر(Body Integrity Identity Disorder) یا بی آئی آئی ڈی کے مرض کی شکار ہے۔

اس مرض میں صحت مند لوگ معذور ہونا چاہتے ہیں ۔2006 میں اندھا ہونے کی خواہش اتنی شدید ہوئی کہ اس نے خود کو زخمی کر کے اندھا ہونے کا فیصلہ کیا تاہم ماہر نفسیات کے مشورے پر اس نے اپنی آنکھوں پر ڈرائی کلین کے قطرے ڈال کر خود کو اندھا کیا۔ جوئل کے مطابق اسے بچپن سے ہی اندھا ہونے کا شوق تھا۔3 سال کی عمر میں ہی وہ رات کو اندھیرے میں ہال میں گھومتی رہتی۔

(جاری ہے)

6 سال کی عمر میں اس نے اپنی ماں سے پوچھا کہ اگر وہ سورج کو دیکھے تو کیا اندھی ہوجائے گی، مثبت جواب پانے پر اس نے سورج کو گھنٹوں تک دیکھنا شروع کر دیا۔اسے یقین تھا کہ اندھا ہو کر ا سے سکون ملے گا۔18 سال کی عمر میں اس نے سیاہ چشمہ پہننا شروع کر دیا۔20 سال کی عمر میں وہ بریل بکس پڑھنے میں بھی مہارت حاصل کر چکی تھی۔ اندھا ہونے کے خواب کو حقیقت کا روپ دینے کےلیے اس نے ایک ماہر نفسیات کی خدمات حاصل کیں۔

ماہر نفسیات کے مشورے سے اس نے آنکھوں میں ڈرائی کلین کے قطرے ڈالے ، جس سے اسے بہت دردہوا مگر اندھا ہونے کے شوق میں اس نے تمام درد سہہ لیے۔قطرے ڈالنے کے آدھے گھنٹے بعد ماہر نفسیات اسے ہسپتال لے گئی، جہاں ڈاکٹروں نے اس کی نظر بچانے کی کوشش کی۔ جوئل ڈاکٹروں پر سخت غصے تھی۔ نارتھ کیرولینا سے تعلق رکھنے والی 30 سالہ جوئل نے بتایا کہ ہسپتال سے آنے کے بعد وہ خوش تھی کہ وہ اندھی ہوگئی، تاہم جب اس نے ٹی وی چلایا تو ٹی وی کی سکرین محسوس کر کے اسے انتہائی غصہ آیا۔

تاہم اسے مکمل طور پر اندھا ہونے میں 6 ماہ لگے۔ جوئل نے اپنے گھر والوں کو بتایا کہ ایک حادثے میں اس کی آنکھیں چلی گئیں، مگر جلد ہی انہیں حقیقت کا پتا چل گیا اور انہوں نے جوئل سے رابطہ ختم کر دیا۔ تاہم جوئل کے سابقہ منگیتر 50 سالہ مائیک نے ، جو قانونی طور پر رجسٹرڈ اندھا ہے، جوئل کو سپورٹ کیا۔ جوئل کا کہنا ہے کہ آج ایک ہی چیز ایسی ہے جو میں دوبارہ دیکھنا چاہتی ہوں اور وہ ہے اپنے باپ کا چہرہ ، تاہم یہ اس وجہ سے ممکن نہیں کیونکہ وہ اب ان میں موجود نہیں۔

جوئل نے کہا کہ اسے اپنے اندھے ہونے پر کوئی پچھتاوا نہیں، میں اندھا ہونے کےلیے ہی پیدا ہوئی تھی۔ جوئل کا کہنا ہے کہ میں نے اپنی کہانی کو اس لیے شیئر کیا تاکہ عوام میں بی آئی آئی ڈی بیماری کے بارے میں آگاہی حاصل ہو۔اس نے کہا کہ ایسے مریضوں کو ڈاکٹروں سے مدد حاصل کرنی چاہیے۔ اس بیماری کے مریض معذور ہونے کےلیے اپنی ٹانگوں کو ریل کی پٹری پر رکھ دیتے ہیں، فریزر میں لٹکا کر یا اونچائی سے گر کر ٹانگوں سے معذور ہونے کی کوشش بھی کرتے ہیں۔

ڈاکٹر مائیکل فرسٹ ،کولمبیا یونی ورسٹی کے پروفیسر ہیں۔ انہوں نے ہی اس بیماری کے لیے بی آئی آئی ڈی کی اصطلاح وضع کی تھی۔انہوں نے بتایا کہ ایسے مریضوں کو اعضا کاٹنے اور اندھے پن کی خواہش ہوتی ہے۔ اس مرض کے مریض جانتے ہیں کہ اُن کے محسوسات غیرمعمولی ہیں اور ان کے دل کی گہرائیوں میں یہی احساسات ہوتے ہیں تاہم وہ اسے بیان نہیں کر سکتے۔ کچھ ماہرین نفسیات ایسا بھی سمجھتے ہیں کہ اس سے پہلے مریض خود کو حد سے زیادہ نقصان پہنچا لے، اس کی خواہش کو کم سے کم نقصان کے ساتھ پورا کر دیا جائے۔

Browse Latest Weird News in Urdu