لوگ مر کر ہی نہیں دے رہے۔ امریکی کمپنیوں کی نئی پریشانی

Ameen Akbar امین اکبر ہفتہ 18 مارچ 2017 11:54

لوگ مر کر ہی نہیں دے رہے۔ امریکی کمپنیوں کی نئی پریشانی

امریکا میں کئی کمپنیاں ایسی ہیں جو لوگوں کی انشورنش پالیسیاں اُن سے خرید کر انہیں فوری طور پر پیسے ادا کر دیتی ہے۔ ایسی کمپنیاں بعد میں پریمیم کی رقم بھی خود ادا کرتی ہے اور جب انشورنش پالیسی کا اصل مالک مرتا ہے تو ساری رقم ان کمپنیوں کو مل جاتی ہے۔سیدھے سادھے الفاظ میں یہ کمپنیاں لوگوں کو ابھی رقم دے دیتی ہے اور انشورنش کمپنیوں سے اُس وقت وصول کرتی ہیں، جب  پالیسی بیچنے والے مرتے ہیں۔


لوگوں سے انشورنش پالیسیاں خریدنے والی ان کمپنیوں  کی ایک ہی پریشانی ہے کہ انہیں لوگوں کی موت کے درست وقت کا اندازہ نہیں ہورہا۔
اسی طرح کی انشورنش پالیسی خریدنے والی ایک کمپنی ، جی ڈبیلو جی لائف، نے اپنے متوقع کلائنٹس سے لعاب کے نمونے جمع کرنے شروع کر دئیے ہیں۔

(جاری ہے)


رپورٹس کے مطابق کمپنی  جینز کا تجزیہ کر کے پتا لگانے کی کوشش کرتی ہے کہ متوقع کلائنٹ کب تک زندہ رہے گا۔

نظریاتی طور پر کسی بھی شخص کے ڈی این اے کا تجزیہ کر کے ماہرین پتا چلا سکتےہیں کہ وہ اندازہً کب تک زندہ رہے گا۔یہ طریقہ ایک نئے الگورتھم کی بنیاد پرepigenetic clocks سے لوگوں کی  زندگی کے بارے میں اندازہ لگاتا ہے۔سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اس طریقے کے پیچھے موجود سائنس ابھی ابتدائی مراحل میں ہےاور اس پر بالکل انحصارنہیں کیا جا سکتا۔
اس سے پہلے جی ڈبلیو جی لائف لوگوں کے طبی ریکارڈ، سوال و جواب، فون انٹرویو اور دوسری چیزوں سے اندازہ لگانے کی کوشش کرتی تھی کہ پالیسی ہولڈر کتنے عرصے تک زندہ رہے گا، لیکن یہ سب اندازے غلط ثابت ہوتے تھے۔


ماہرین کے مطابق پچھلے 10، 15 یا 20 سالوں میں لوگوں کے زندہ رہنے کے جتنے بھی اندازے لگائے گئے وہ سب غلط ثابت ہوئے۔ لوگ کمپنیوں کے اندازے سے زیادہ زندہ رہے۔ لوگوں کےلمبے عرصے تک زندہ رہنے سے کمپنیوں کے پریمیم کے اخراجات بڑھ جاتے ہیں اور اُن کا منافع بہت کم ہو جاتا ہے۔

Browse Latest Weird News in Urdu