Ju Paoon Phelata Hai - Article No. 842

Ju Paoon Phelata Hai

جو پاوٴں پھیلاتا ہے وہ ہاتھ نہیں پھیلاتا - تحریر نمبر 842

ابھی سو برس پہلے کا قصہ ہوگا کہ ایک بزرگ دمشق کی جامع مسجد (جامع اموی) میں بیٹھے ہوئے درس دے رہے تھے۔ اتفاق سے اس دن ان کے گُھٹنے میں تکلیف تھی اور وہ پاوٴں پھیلائے ہوئے بیٹھے تھے اور جیسا کہ قاعدہ ہےکہ استاد کی پیٹھ قبلے کی طرف ہوتی

بدھ 16 ستمبر 2015

ابھی سو برس پہلے کا قصہ ہوگا کہ ایک بزرگ دمشق کی جامع مسجد(جامع اموی) میں بیٹھے ہوئے درس دے رہے تھے۔ اتفاق سے اس دن ان کے گُھٹنے میں تکلیف تھی اور وہ پاوٴں پھیلائے ہوئے بیٹھے تھے اور جیسا کہ قاعدہ ہے کہ استاد کی پیٹھ قبلے کی طرف ہوتی اور اس کے شاگرد سامنے بیٹھے ہوتے ہیں۔ شاگرد دروازے سے داخل ہوتے ہیں اور بیٹھ جاتے ہیں۔ اس وقت استاد کا چہرہ دروازے کی طرف تھا پُشت قبلہ کی طرف تھی اور پاوٴں دروازے کی طرف پھیلائے ہوئے تھے۔

ابراہیم پاشا اس زمانے کا شام کا گورنر تھا اس کی سفاکی اور بے رحمی کے قصے لوگوں کی زبانوں پر تھے۔ اس کوخیال آیا کہ میں حضرت کا درس جا کر سنوں اور ملاقات کروں۔ راستہ ہی وہ تھا اس لیے وہ پہلے دروازے سی طرف سے آیا۔
سب کا خیال تھا کہ استاد کو ہزار تکلیف ہو اس موقع پر اپنا پاوٴں سمیٹ لیں گے، لیکن انھوں نے بالکل جنبش نہیں کی نہ ردس دینا بند کیا ، نہ پاوٴں سمیٹا، اسی طرح پاوٴں پھیلائے رہے۔

(جاری ہے)


ابراہیم پاشا پاوٴں ہی کی طرف آکر کھڑا ہو گیا۔
ان کے شاگرد خوف سے لرز اُٹھے کہ دیکھیے کیا ہوتا ہے کیا ہمارے شیخ کی شہادت ہماری آنکھوں کے سامنے ہو گئی یا تذلیل ہو گی کہ مشکیں باندھ لی جائیں گی اور کہا جائے گا کہ لے چلو۔
ابراہیم پاشا کھڑا رہا اور وہ دیر تک درس دیتے رہے۔ نگاہ اُٹھا کر دیکھا تک نہیں۔ پاوٴں بھی نہیں سمیٹا، مگر خدا جانے اس پر کیا اثر ہوا کہ اس نے کچھ کہا نہیں، کوئی غصہ نہیں کیا، کوئی شکایت نہیں کی اور چلا گیا۔

وہ کچھ ایسا معتقد ہوا کہ اس نے جاکر اشرفیوں کا ایک تھیلا غلام کے ہاتھ بھیجا اور کہا:” شیخ کو میرا سلام کہنا اور کہنا کہ یہ حقیر نذرانہ قبول فرمائیں“۔
انھوں نے جواب میں کہا وہ آبِ زر سے لکھنے والا جملہ تھا جو علم کی تاریخ میں ہمیشہ روشن رہے گا۔ انھوں نے کہا تھا۔” گورنر کو سلام کہنا اور کہنا جو پاوٴں پھیلاتا ہے وہ ہاتھ نہیں پھیلاتا ، یا پاوٴں ہی پھیلا لے یا ہاتھ ہی پھیلا لے، ایک ہی کام ہو سکتا ہے دنیا میں، جب میں نے پاوٴں پھیلائے تھے میں اسی وقت سمجھا تھا کہ اب میں ہاتھ نہیں پھیلا سکتا۔“

Browse More Moral Stories