Jackie - Article No. 2244

Jackie

جیکی - تحریر نمبر 2244

سانپ کے ڈسنے سے پہلے ہی جیکی نے پکڑ کر اسے بھنبھوڑ دیا۔میں جلدی سے آئی تو جیکی سانپ کو مار چکا تھا۔جیکی نے میرے بیٹے کی جان بچائی۔

جمعرات 28 اپریل 2022

جاوید اقبال صدیقی
”امی!دیکھیے تو کتنا خوب صورت ہے،بالکل سفید ہے اسے ہم رکھ لیتے ہیں!“
میں نے کہا:”عبداللہ!تم اسے لے کر کیوں آئے ہو؟اسے ہم رکھیں گے کہاں؟“
”امی!اسے پیاس لگ رہی ہے۔اسے تھوڑا سا پانی پلا دیں۔یہ کہتا ہوا عبداللہ اندر گیا اور ایک پرانے برتن میں پانی لا کر اس کے آگے رکھ دیا۔
اس نے پانی ایسے پینا شروع کر دیا جیسے کئی دنوں کا پیاسا ہو۔جب وہ پانی پی چکا تو عبداللہ نے ڈبل روٹی لا کر اسے دے دی جو اس نے جلدی جلدی کھا لی۔وہ مسلسل عبداللہ کو دیکھے جا رہا تھا اور ساتھ ہی پتلی سی لمبی دُم ہلا رہا تھا۔
واقعی وہ اچھی نسل کا سفید رنگ کا پِلا تھا۔ہمارے پاس اسے رکھنے کے لئے مناسب جگہ نہیں تھی،مگر عبداللہ کی ضد کو دیکھتے ہوئے میں نے اسے گیٹ کے باہر بنے چبوترے پر رہنے کے لئے جگہ بنا دی،جہاں عبداللہ اسے وقت پر کھانا اور پانی دے دیتا اور وہ وہاں بیٹھا رہتا۔

(جاری ہے)

اس طرح چند مہینوں میں وہ بڑا ہو گیا اور پِلے سے ایک خوبصورت موٹا تازہ کتا بن گیا۔عبداللہ نے اس کا نام جیکی رکھا تھا۔
جیکی خاموشی سے چبوترے پر بیٹھا رہتا۔گلی میں کسی بھی پیدل یا سوار گزرنے والے کو اس نے کبھی کچھ نہیں کہا۔ہاں رات میں کبھی کبھار وہ کسی آوارہ کتے یا جانور کو دیکھ لیتا تو بھوکنا شروع کر دیتا۔عام طور پر وہ گھر سے باہر دروازے کے پاس لگے پودوں کے نیچے آرام کرتا رہتا۔
اگر عبداللہ کسی کام سے جاتا تو وہ اس کے ساتھ ساتھ گلی کے کونے تک جاتا اور پھر واپس آ کر بیٹھ جاتا۔
میرے بیٹے عبداللہ نے ایک بیٹر بھی پال رکھا تھا،جس کے پَر کٹے ہوئے تھے اور جو عام طور پر پنجرے میں بند رہتا تھا۔
ایک دن شام کے وقت وہ کہیں باہر نکل گیا۔جیکی نے اسے روکا واپس گھر میں لانے کی کوشش کی۔اسی دوران سورج غروب ہو گیا۔کتوں کے ایک ساتھ بھوکنے کی آواز آنے لگیں۔
دروازہ کھول کر باہر دیکھا تو تین چار کتے جیکی پر حملہ کر رہے تھے۔جیکی کا انداز ایسا تھا جیسے کسی چیز کی حفاظت کر رہا ہو۔عبداللہ نے کتوں کو بھگایا اور جیکی کے زخموں پر مرہم لگانے لگا تو دیکھا کہ اس نے بیٹر کو اپنے نیچے چھپا رکھا ہے۔اگلی صبح جانوروں کے ڈاکٹر سے دوا لی اور انجیکشن لگوایا۔اس طرح تقریباً ایک ہفتہ علاج کے بعد وہ چلنے پھرنے کے قابل ہوا۔
بیٹر زندہ سلامت تھا۔اس طرح اس نے اپنی جان پر کھیل کر بیٹر کی جان بچائی تھی۔
گرمی کا موسم تھا۔ہمارے پڑوسی کے گھر سے پانی بہہ کر گلی میں آ گیا۔جیکی نے جب پانی دیکھا تو جا کر اس میں بیٹھ گیا۔بعد میں جب پانی سوکھ گیا تو اس نے گیلی جگہ کھود کر ایک گڑھا بنایا اور اس میں بیٹھ گیا۔تھوڑی دیر بعد جب پڑوسن نے دروازہ کھولا تو دیکھا جیکی مزے سے گڑھے میں سو رہا ہے۔
انھوں نے ایک پتھر اُٹھایا اور سوتے ہوئے جیکی کو دے مارا۔اچانک پتھر لگنے سے وہ بے چارہ درد کے مارے چیخنے چلانے لگا۔میں گھبرا کر باہر نکلی۔خدایا جیکی کو کیا ہو گیا ہے۔جیکی بھاگ کر میرے پاس آ گیا۔مجھے دیکھتے ہی پڑوسن کہنے لگیں:”اگر کتا رکھنا ہے تو گھر کے اندر رکھو،اس نے ہماری جگہ خراب کر دی ہے۔“
کچھ عرصے بعد میں عمرہ کی ادائیگی کے لئے سعودی عرب روانہ ہو گئی۔
پاکستان واپس آنے پر اپنے دروازے کے سامنے جب میں گاڑی سے اُتری تو پڑوسن نے نہ صرف میرے گلے میں پھولوں کا خوب صورت ہار ڈالا اور آگے بڑھ کر میرے ہاتھوں کے بوسے لینے لگیں۔ان کی آنکھوں میں تیرتے آنسو دیکھ کر میں حیرت میں پڑ گئی۔
دوسرے دن پڑوسن نے بتایا کہ میرا بیٹا گلی میں کھیل رہا تھا کہ قریبی کوڑے کے ڈھیر سے ایک سانپ رینگتا ہوا اس کے قریب آ گیا۔سانپ کے ڈسنے سے پہلے ہی جیکی نے پکڑ کر اسے بھنبھوڑ دیا۔میں جلدی سے آئی تو جیکی سانپ کو مار چکا تھا۔جیکی نے میرے بیٹے کی جان بچائی۔میں اپنے سابقہ رویے پر تم سے معافی چاہتی ہوں اور وعدہ کرتی ہوں کہ بے زبان جانوروں کو کبھی تنگ نہیں کروں گی۔

Browse More Moral Stories