Soofi Darvesh Wasif Ali Wasif RA - Article No. 2052

Soofi Darvesh Wasif Ali Wasif RA

صوفی درویش واصف علی واصف رحمۃ اللہ علیہ - تحریر نمبر 2052

آپ رحمۃ اللہ علیہ کے افکار آج بھی زبان زدعام ہیں

جمعرات 16 مئی 2019

خالد یزدانی
واصف علی واصف کی باتیں آج بھی زبان زد عام ہیں ،جب وہ حیات تھے‘مخلوق خدا ان کے پندونصائح سے فیض پاتی تھی اور ان کے اس جہان فانی سے جانے کے بعد بھی ان کی باتوں کو آج بھی دل و دماغ میں سمائے ہوئے ہیں‘ان کے افکار آج بھی زبان زدعام ہیں ۔
انسان مال جمع کرتا ہے اس کے بینک بھرے رہتے ہیں اور دل خالی رہتاہے۔


ہم فرعون کی زندگی چاہتے ہیں اور موسیٰ علیہ السلام کی عاقبت،
واصف علی واصف کی زندگی کے ماہ وسال پر نظر دوڑائی جائے تو ان کی سال کے پہلے مہینے جنوری کی 19تاریخ اور سن 1929ء کو آپ کی ولادت ہوئی ان کے والد ملک عارف کا تعلق اعوان قبیلے کی ایک شاخ”کنڈان“سے ہے والدین نے اس بچے کا نام واصف علی رکھا بچپن کے بعد جب پڑھنے لکھنے کے قابل ہوئے تو ان کو قصبہ کے ایک سکول میں داخل کر وادیا گیا اور پھر آپ نے جون1939ء میں گورنمنٹ ہائی سکول خوشاب سے مڈل کا امتحان پاس کیا پھر مزید تعلیم و تربیت کیلئے نانا کے پاس جھنگ آگئے اور جھنگ کے گورنمنٹ ہائی سکول سے 1944ء میں میٹرک کا امتحان فرسٹ ڈویژن میں پاس کیا۔

(جاری ہے)


اس وقت میٹرک کا امتحان پنجاب یونیورسٹی لیا کرتی تھی ‘اسی طرح انہوں نے ایف اے جھنگ کے کالج سے فرسٹ ڈویژن ہی میں پاس کیا اور گورنمنٹ کالج جھنگ سے گریجوایشن کرنے کے بعد ایم اے انگریزی ادب کیلئے گورنمنٹ کالج لاہور میں آگئے ۔دوران تعلیم نوجوان واصف کا کیرئیر توبے مثال تھا‘اسی طرح غیر نصابی سرگرمیوں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے ۔
ہاکی کے بہترین کھلاڑی کی حیثیت سے 1948ء میں ”کالج کے بہترین پلےئر“کا اعزاز اور 1949ء میں ”ایوارڈ آف دی اےئر “بھی دیا گیا تھا جبکہ ستمبر 1954ء میں ویسٹ پاکستان پولیس ٹریننگ کا اعزازی سرٹیفکیٹ بھی دیا گیا۔
تعلیم کے بعد انہوں نے سول سروس کا امتحان پاس کیا مگر سرکاری نوکری ان کی منزل مقصود نہ تھی لہٰذا کچھ عرصہ بعد انہوں نے ٹمپل روڈ(حمید نظامی روڈ)پر پنج دریا کے مالک وایڈیٹرافضل خان کے پنجابی اینگلو کالج میں علوم شرقیہ کے طالب علموں کو پنجابی پڑھانے کا آغاز کر دیا،بعدازاں نابھ روڈ پر”لاہور انگلش کالج“کودرس و تدریس کا مرکز بنا لیا اور ساتھ ہی ہفتہ وار ادبی نشستوں کا اہتمام بھی ہونے لگا جس میں اردو پنجابی کے معروف شعراء کرام شرکت کرتے تھے۔

انہی دنوں میری واصف صاحب سے پہلی بار ملاقات ہوئی تھی ۔وہ جتنے اچھے استاد تھے اتنے ہی اچھے شاعر بھی تھے،ان کی نعمتوں کا اسلوب بھی منفرد تھا اور اس میں ایک وار فتگی تھی ،جس طرح ان کی گفتگو دل پر اثر کرتی تو ان کے اشعار بھی سننے والوں کو مسحور کر دیتے ۔اسی دوران انہوں نے تصوف پر لیکچردینے کے ساتھ اخبارات میں خاص طور پر ”نوائے وقت “میں ہر ہفتے کالم لکھنے کا بھی آغاز کر دیا تھا۔

آپ کو تصوف سے دلچسپی زمانہ طالب علمی سے ہی تھی اور درس و تدریس کے دوران بھی وہ اس موضوع پر گفتگو بھی کرتے اور لکھتے بھی رہے۔انہی دنوں ”ادب لطیف“کے ایک خصوصی شمارے میں تصوف کے موضوع پر اشفاق احمد اور حنیف رامے کے ساتھ واصف علی واصف کی پر مغز مقالے شائع ہوئے اور اشفاق احمد ،حنیف رامے سے ان کی ذہنی ہم آہنگی سے ایسی مجالس کا آغاز ہوا جس نے دیکھتے ہی دیکھتے علم وادب کے شیدائیوں کے دلوں میں گھر کر لیا۔

ابتدا میں واصف علی واصف کو معروف شخصیات ہر ہفتے اپنے گھر مدعو کرتیں اور واصف صاحب کی تصوف پر گفتگو ہوتی اس کے بعد شرکاء محفل کے جوابات بھی دیتے ۔پھر یہ سلسلہ مستقل واصف صاحب کے گھر پر ہی ان کی وفات تک جاری رہاجس میں عالمی وادبی ہی نہیں مختلف شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والوں کی کثیر تعداد شرکت کرتی تھی ۔
واصف علی واصف کا کلام اگر چہ اخباروجرائد میں وقتاً فوقتاً چھپتا رہتا تھا پھر اسے احباب کے اصرار پر ترتیب دے کر کتابی صورت میں ”شب چرغ “کے نام سے شائع ہوا ،پھر ان کی کتاب”کرن کرن سورج“طبع ہوئی تو لاہور میں اس کی تقریب پذیرائی ایک فائیو سٹار ہوٹل میں ہوئی جس میں ملک بھر کی معروف علمی وادبی شخصیات نے اظہار خیال بھی کیا اور یوں ان کی کتابوں کو بھی پذیرائی کا سلسلہ وقت کے ساتھ بڑھنے لگا۔

واصف علی واصف کی تصانیف میں قطرہ قطرہ قلزم،حرف حرف حقیقت ،دل دریا سمندر ،بات سے بات ،گمنام ادیب ،ذکر حبیب ،مکالمہ ،دریچے اور پنجابی شاعری کا مجموعہ بھرے بھڑ رولے بھی شامل ہیں ۔ان کی محافل میں ہونے والی گفتگو کو کتابی شکل میں بھی پیش کیا گیا اور اب تک اس کی دور درجن سے زائد جلدیں شائع ہو چکی ہیں ۔واصف علی واصف 18جنوری 1993ء کو 64سال کی عمر میں وفات پا گئے۔
ان کو جنازگاہ مزنگ کے قبرستان میں سپردخاک کیا گیا۔
آج ہر سال ان کے عقیدت مند برسی کے موقع پر ان کے مرقد پر حاضری دیتے ہیں اور اس عظیم صوفی دانشور کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں جس نے اپنی تحریروں اور تقریروں سے عام سننے والوں کے دلوں کومسخر کیا ۔وہ فرماتے تھے ”عظیم لوگ بھی مرتے ہیں مگر موت ان کی عظمت میں اضافہ کرتی ہے “۔
واصف علی واصف آج اس جہان فانی میں نہیں لیکن ان کی تحریروں سے علم وادب کے پروانے آج بھی فیض یاب ہورہے ہیں ۔بڑے یقین سے دیکھی تھی ہم نے صبح امید قیب پہنچے تو واصف وہ روشنی نہ رہی۔

Browse More Urdu Literature Articles