Mustafa Zaidi Profile & Information

Complete profile & information about famous Urdu writer Mustafa Zaidi مصطفی زیدی - Read complete profile, contact information and life history of Mustafa Zaidi
Mustafa Zaidi Profile & Information

مصطفی زیدی

مصطفٰی زیدی جدید شعراء اردو میں ایک اہم نام۔ جن کی نظمیں داخل اور خارج کا حسین امتزاج ہیں۔تیغ الہ آبادی کے نام سے بھی لکھتے رہے سیدمصطفیٰ حسین زیدی کی پیدائش 12اکتوبر1930ء کو ایک متمول خاندان میں ہوئی تھی ان کے والد سید لخت حسین زیدی سی آئی ڈی کے ایک اعلی افسر تھے۔ مصطفیٰ زیدی بے حد ذہین طالب علم تھے۔ الہ آباد یونیو رسٹی سے انہوں نے گریجویشن کیا تھا اور صرف 19سال کی عمر میں ان کا شعری مجموعہ ”موج مری صدف صدف“ کے عنوان سے شائع ہوا تھا جس کا دیباچہ فراق گورکھپوری نے لکھا تھا اور فراق صاحب نے ان کی شکل میں ایک بڑے شاعر کی پیش گوئی کی تھی۔ کسی حد تک تو یہ پیش گوئی درست ثابت ہوئی لیکن بے وقت موت نے ان کا شعری سفر اچانک ختم کر دیا۔ چالیس سال کی زندگی میں ان کے چھ مجموعے شائع ہوئے۔ ان کے مرنے کے بعد ان کی کلیات کلیاتِ مصطفی زیدی کے نام سے شائع ہوئیں۔ کراچی آمد مصطفیٰ زیدی 1951ء میں کراچی چلے گئے تھے۔ کچھ دن وہ اسلامیہ کالج پشاور میں بطور استاد تعینات رہے۔ وہاں سے نکالے گئے ۔ پھر انہوں نے سی ایس پی کا امتحان دیا جس میں کامیابی حاصل کی اور اہم عہدوں پر کام کیا۔ لیکن بار بار کے مارشل آزادیِ فکر کا گلا گھونٹ دیا تھا جس کی باز گشت ان کے اشعار میں سنی جا سکتی ہے۔ جس دن سے اپنا طرزِ فقیرانہ چھٹ گیا شاہی تو مل گئی دلِ شاہانہ چھٹ گیا موت یا خودکشی وہ جب کراچی میں اسسٹنٹ کمشنر تھے اسی وقت جنرل یحییٰ خاں کے عتاب کا بھی شکار ہوئے اور یحییٰ خاں نے جو 303 افسران کی ہٹ لسٹ تیار کر رکھی تھی اس میں مصطفیٰ زیدی کا نام بھی تھا مگر فوجی آمر کی گولیوں سے قبل وہ کسی بڑی سازش کا شکا ر ہو گئے اور اس کا سبب بنی ایک قتالہ عالم شہناز گل، جس کے باعث مصطفیٰ زیدی کو اپنی زندگی سے ہاتھ دھونا پڑا۔ ان کی لاش دس اکتوبر 1970ء کو کراچی کے ان کے دوست کے بنگلے سے ملی تھی۔ جس پر بعد میں تحقیقاتی کمیشن بھی بنا تھا اور مقدمہ بھی عدالت میں گیا تھا۔ یہ مقدمہ اخبارات نے اس قدر اچھالا کہ مہینوں تک اس پر دھواں دھار بحث ہوتی رہی۔ عدالت نے طویل ردوکد کے بعد فیصلہ دیا کہ یہ قتل نہیں بلکہ خودکشی تھی اور شہناز گل کو بری کر دیا۔ شہناز شہناز گل کے لیے مصطفیٰ زیدی نے کئی غزلیں اور نظمیں کہی تھیں جن میں یہ شعر بہت مشہور ہے: شاعر نہ تھی مگر مرے فن کی شریک تھی وہ روح کے سفر میں بدن کی شریک تھی نمونہ کلام مصطفیٰ زیدی کو جس درد و کرب سے گزرنا پڑا اس کی باز گشت ان کی غزلوں کے اشعار میں سنائی دیتی ہے۔ خاص طور پر ان کی مشہور غزل میں تو یہ کرب بار بار اتر آتا ہے: کسی اور غم میں اتنی خلشِ نہاں نہیں ہے غمِ دل مرے رفیقو غمِ رائیگاں نہیں ہے کوئی ہم نفس نہیں ہے کوئی ہم زباں نہیں ہے فقط ایک دل تھا اب تک سو مہرباں نہیں ہے مری روح کی حقیقت مرے آنسوؤں سے پوچھو مرا مجلسی تبسم مرا ترجماں نہیں ہے کسی آنکھ کو صدا دو کسی زلف کو پکارو بڑی دھوپ پڑ رہی ہے کوئی سائباں نہیں ہے انہیں پتھروں پہ چل کر اگر آسکو تو آؤ مرے گھر کے راستے میں کوئی کہکشاں نہیں ہے مصطفیٰ زیدی جوش ملیح آبادی سے متاثر تھے۔ یہ الگ بات ہے کہ ان کی شاعری میں جوش جیسی گھن گرج نہیں ہے۔ لیکن زیدی نے بھی کربلا کے استعارے کو بہت خوبصورتی سے استعمال کیا ہے: ایسی سونی تو کبھی شامِ غریباں بھی نہ تھی دل بجھے جاتے ہیں اے تیرگیِ صبح وطن میں اسی کو ہ صفت خون کی ایک بوند ہوں جو ریگ زارِ نجف و خاکِ خراساں سے ملا جدید غز ل کی تشکیل میں مصطفیٰ زیدی کا بہت اہم حصہ ہے اور ان کے شعری مجموعے موج مری صدف صدف، شہر آرزو،زنجیریں، کوہ ندا اور قباے سازاردو کے شعری ادب میں اضافہ کی حیثیت رکھتے ہیں: غمِ دوراں نے بھی سیکھے غم جاناں کے چلن وہی سوچی ہوئی چالیں وہی بے ساختہ پن وہی اقرار میں انکار کے لاکھوں پہلو وہی ہونٹوں پہ تبسم وہی ابرو پہ شکن حدیث ہے کہ بھولا گناہ گار نہ ہو گناہ گار پہ پتھرسنبھالنے والے خود اپنی آنکھ کی شہتیر کی خبر رکھیں ہماری آنکھ سے کانٹے نکالنے والے اب تو چبھتی ہے ہوا برف کے میدانوں کو ان دنوں جسم کے احساس سے جلتا ہے بدن
Urdu Name مصطفی زیدی
English Name Mustafa Zaidi
Gender male

Browse Profiles of Writers & Adeeb