قصور وار کون

Qasoor War Kon

Mehwish Khan مہوش خان جمعہ 11 اکتوبر 2019

Qasoor War Kon
آج کا دور نفسا نفسی کا دور ہے مادہ پرستی کا دور ہے اور اس میں قصور جہاں ہمارے میڈیا کا ہے وہیں آج سب سے زیادہ قصور وار ہمارے گھروں اور تعلیمی اداروں کی تربیت کا ہے جو سرے سے ہو ہی نہیں رہی۔جب گھروں میں سادہ رہن سہن کی جگہ بڑے بڑے نامور برینڈز لے لیں گے تو حالات یہی ہوں کہ جو اس وقت ہیں۔
آج ہمارے گھروں میں عام کھانا بنانے کے لئے بھی اشیائے خوردونوش نام ور دُکانوں سے خریدنے کو اپنی شان سمجھا جاتا ہے،مہمانوں کی تواضع ہو یا خود کچھ کھانا برینڈ سب سے پہلے مدنظر رکھی جاتی ہے اور تو اور گھر کی چھوٹی موٹی تقریبات سے لیکر شادی بیاہ تک میں برینڈ اور ڈیزائنرز کو مدنظر رکھا جاتا ہے کیونکہ بھئی عزت کا سوال ہے لوگوں کو بھی تو دکھانا ہے کہ ہم چیز کیا ہیں۔

مگر افسوس صد افسوس اس دنیا داری اور دکھاو ے کی ریس میں انسانیت کہیں بہت پیچھے رہ گئی۔

(جاری ہے)

انھی چیزوں کو مدنظر رکھتے ہوئے۔ آپ سب کو ایک نصیحت کرنا چاہوں گیں کیونکہ میں یہاں جرمنی جیسے ملک میں نہ صرف بطور صحافی اپنی ذمہ داریاں پوری کر رہی ہوں بلکہ میں خدمت خلق کو اولین عبادت سمجھتے ہوئے الحمداللہ سوشل روک بھی کرتی ہوں اور یہ مجھ پر اللہ کا احسان ہے کہ لوگ مجھ پر بھروسہ کرتے ہوئے مجھ سے اپنے مسائل بیان کرتے ہیں۔

اسی لئے ان دنوں باہر ممالک میں شادیوں کے سلسلے میں مجھے انتہائی تکلیف دہ اور حد درجہ تشویش ناک کہانیاں سننے کو مل رہی ہیں۔اسے میری نصیحت سمجھیں یا صلاح مگر پلیز اس دنیاوی شو شا میں،یا کسی لالچ کا شکار ہوئے بغیر اپنی بچیوں کے رشتے کریں اچھی طرح دیکھ بھال کے،چھان پھٹک کرلیں۔اور اگر لڑکا یورپ امریکہ کا ہے تو پھر تو اسے اتنی تنقیدی نگاہ سے دیکھیں اور گزاریں کہ بعد میں کوئی افسوس نہ رہے۔

آپ لوگ تو اپنی بچیوں کو باہر کے شوق میں بیاہ دیتے ہیں مگر ان پر کیا گزرتی ہے یہ وہ اپنے گھر والوں کو بتانے سے بھی قاصر ہوتی ہیں۔
اور خدارا اپنی بچیوں کو یہ بات بھی سمجھا ئیں کہ کسی بھی صورت میں ظلم برداشت نہیں کرنا۔شوہر کے گھر سے تمہارا جنازہ ہی واپس آئے گا یہ کیا بات ہے۔ان خو دنیاوی تعلیم کے ساتھ ساتھ قرآنی تعلیم بھی دیں تاکہ ان کو معلوم ہو کہ ان کے حقوق کیا ہیں اور وہ کیسے ایک اچھی بیوی بن سکتی ہیں۔

ظلم سہنا بھی اتنا ہی ناپسند ہے اللہ کو جتنا کہ ظلم کرنا۔اور ہر گز ہر گز شوہر سمیت کسی کو اس بات کی اجازت نہ دیں کہ وہ آپ کی بیٹی کی عزت نفس مجروح کرے یا اسے اپنے پیروں تلے روندے۔ان کو یہ اعتماد دے کر رخصت کریں کہ اپنی عزت نفس مجروح نہ ہونے دینا۔مرد کا ہاتھ اگر عورت پر ایک بار اٹھ جائے تو پھر بار بار اٹھتا ہے۔لہذا مرد کو اس حد تک جانے سے بعض رکھیں۔اور اس کو یہ بات باور کرائے کہ عزت کا سودا ہر گز نہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا بلاگ کے لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

© جملہ حقوق بحق ادارہ اُردو پوائنٹ محفوظ ہیں۔ © www.UrduPoint.com

تازہ ترین بلاگز :