Episode 10 - Chalo Jaane Do By Sumaira Hamed

قسط نمبر 10 - چلو جانے دو - سمیرا حمید

اس نے اسے دیکھ نہ لیا ہوتا تو وہ واپس چلی جاتی،بھاڑ میں جائے سوری،کل تو اس نے واپس چلے ہی جانا تھا… پھر بھی وہ اس کے پاس آکر کھڑی ہو گئی۔
”میں میگزین کے لیے آپ کو سوری کہنے آئی ہوں۔“
”اب کیا ہو سکتا ہے،لیواٹ۔“ اس نے کوئی تاثر دیے بغیر کہا،یعنی غصہ ابھی بھی تھا۔
”میں جانتی ہوں،میری غلطی ہے۔“ اس نے اتنا ہی کہا۔
”آپ ہماری مہمان ہیں،اب آپ کو کچھ کہہ تو نہیں سکتے۔
اس لیے اٹس اوکے۔“ وہ پھر بنا تاثر کے بولا۔
اس کا پارہ یکدم ہائی ہو گیا۔ معذرت تو بندہ طریقے سے قبول کر لے۔
”میں آپ کی نہیں،ڈاکٹر صاحب کی مہمان ہوں۔ انہوں نے ہی مجھے پناہ دی،میری مدد کی،میرا خیال رکھا۔ آپ تو جب ملے،خونخوار،منہ پھاڑ ہی ملے ہیں،نہ لڑکی ہونے کا احساس ہوا نہ ہی اکیلے اور مہمان ہونے کا خیال۔

(جاری ہے)

”ہوں…“ اس نے ایک لمبی ہوں کی… جیسے مزے لے کر اپنا پسندیدہ کھانا کھایا جاتا ہے۔
”خونخوار… منہ پھاڑ… بہت اچھی باتیں کر لیتی ہیں آپ… بہت متاثر کیا اس بار بھی آپ نے…“
”آپ کی بدتمیزی نے بھی بہت متاثر کیا مجھے“ وہ دو بدو بولی۔
”اس بدتمیز شخص نے ہی اس رات آپ کو اکیلا دیکھ کر اپنے پاپا کو آپ کے پاس بھیجا تھا۔ اس گڑھے میں آپ خود گریں،لیکن نکالا میں نے۔ چائے میری آپ نے گرا دی،مگ میرا توڑ دیا جو میری بہن خاص میرے لیے ملائیشیا سے لائی تھی۔
میگزین میرے آپ نے آرٹ کے نمونے بنا دیے اور بدتمیز بھی میں ہوں… آپ کا اپنے بارے میں کیا خیال ہے؟“
”اگر میں آپ کے گھر میں نہ ہوتی تو میں آپ کو بتاتی کہ آپ کیا ہیں اور میں کیا ہوں…“ وہ غصے سے بھڑک اٹھی تھی۔
”آپ میرے گھر میں ہیں،اس بات کو بھول جائیں۔ آپ بتایئے مجھے۔“
”میں آپ سے سوری کر رہی ہوں اور آپ باتیں سنا رہے ہیں مجھے۔
”مجھے نہیں چاہیے آپ کا سوری… پھر…“
”پھر یہ کہ آپ بھاڑ میں جائیں۔“
”جہاں آپ گری تھیں وہاں؟“ وہ تمسخر سے بولا۔
حرا نے اس کے چہرے پر آئی مسکراہٹ کو دیکھا۔ وہ اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی تھی،کچھ کہے بنا وہ کمرے میں واپس آ گئی۔
”آپ وہیں جا رہی ہیں؟“ اسے اپنے پیچھے آواز سنائی دی۔
”جنگلی… سنکی… گنوار…“ وہ دیر تک بڑبڑاتی رہی۔
                             ###
صبح ہوتے ہی معاذ کا فون آ گیا وہ اسے لینے آ رہا تھا۔
”ڈاکٹر صاحب کہاں ہیں؟“ اس نے ناشتا کرکے جنت سے پوچھا۔
”وہ تو رات آئے ہی نہیں۔“
اس کے بیگ میں مال سے خریدی ہوئی کچھ جیولری تھی۔ اس نے بے حد شکریہ کے ساتھ وہ جنت کو دی،جو بضد اصرار بھی وہ نہیں لے رہی تھی،اس کے شوہر اکبر کے ساتھ اسے مال تک جانا تھا وہیں سے معاذ نے اسے لینا تھا۔
جنت سے اچھی طرح مل کر وہ اکبر کے ساتھ آ گئی،راستے میں آنے والے ڈاکٹر خاور کے چھوٹے سے ہسپتال میں ان سے مل کر اور ان کا شکریہ ادا کرکے وہ مال سے معاذ کے ساتھ گاڑی میں بیٹھ کر ریسٹ ہاؤس آ گئی۔
وہ سب لوگ تیاری کرکے بیٹھے تھے۔ اس کے آتے ہی فوراً واپسی کے لیے نکل پڑے۔ اس کی کہانی سننے کے بعد جس میں مہران کا کہیں ذکر نہیں تھا،وہ سب اپنی اپنی خوش گپیوں میں مگن ہو گئے۔
سب معاذ کو دھمکی دے رہے تھے کہ وہ سب جا کر حرا کے بچھڑ جانے والی کہانی سب کو سنائیں گے۔
”میرے پاپا کی توبہ جو اتنے بڑے گینگ کے ساتھ اس طرف آیا۔“
”مسئلہ گینگ نہیں تھا،مسئلہ موسم تھا،ہم نے غلط وقت کا انتخاب کیا…“ شامل نے گینگ کا دفاع کیا۔
”یار! برف ہی نہیں دیکھ پاتے تو کیا فائدہ یہاں آنے کا۔“
”آپ شہری لوگ برف دیکھنے کے لیے تو پاگل ہو جاتے ہیں۔
“ کافی دیر سے خاموش حرا یکدم بولی۔
”ہم شہری لوگ مطلب…؟“ شامل حیرت سے بولا۔
”ہاں ہو جاتے ہیں پاگل۔جو نہیں دیکھا اسی کے لیے ہوتے ہیں نا،سارا سال ہوا اور دھوپ پر ہی گزارا کرتے ہیں۔ تھک جاتے ہیں ہم شہری لوگ…“ معاذ کو بات بات پر بلا وجہ غصہ آ رہا تھا،شاید وہ واپس نہیں جانا چاہتا تھا۔
”آپ یہاں شفٹ ہو جائیں معاذ بھائی!“ مدیحہ بولی۔
”سنجیدگی سے سوچ رہا ہوں…“
حرا سب سے زیادہ خاموش تھی۔ آتے ہوئے جو جوش ان سب میں تھا جاتے ہوئے وہ اُداسی میں بدل گیا تھا اور یہ اُداسی سب سے زیادہ حرا محسوس کر رہی تھی۔ وہ ہر گزرتی سڑک،درخت،پہاڑ… گھر کو اُداسی سے دیکھ رہی تھی۔ اسے نہیں معلوم تھا کہ واپسی پر وہ اتنی اداس ہو جائے گی… لیکن وہ اداس اور خاموش ہوتی ہی چلی گئی۔
                                       ###

Chapters / Baab of Chalo Jaane Do By Sumaira Hamed