Last Episode - Chalo Jaane Do By Sumaira Hamed

آخری قسط - چلو جانے دو - سمیرا حمید

”کیا ہوا حرا؟“ وہ بے حد پریشان ہو گیا۔
”میں بھول آئی ہوں کچھ وہاں۔ مجھے جا کر لا دیں۔“
”کیا بھول آئی ہو؟“ وہ کیسے سمجھتا۔ حرا نے صرف گیلی آنکھوں سے معاذ کو دیکھا۔
”میں نے اتنا انتظار کیا کہ کوئی تو مجھے وہاں لے جائے مگر…“
معاذ گہری سوچ میں ڈوب گیا۔
”ڈاکٹر خاورکے گھر جانا ہے؟“
حرا نے صرف سر ہلایا۔
اندر لاکھ وسوسے تھے مگر کسی کو تو بتانا ہی تھا۔
”ہم ان کے گھر جا کر کہیں گے کیا حرا!“ وہ پریشان ہو گیا۔ ”بہت عجیب سا لگے گا۔“
”ہم کہیں گے ہم ڈاکٹر صاحب کا شکریہ ادا کرنے آئے ہیں۔“ حرا نے جوش سے کہا۔ ”ان سے ملنے آئے ہیں باقی وقت بتا دے گا کہ ہمارا جانا ٹھیک تھا یا نہیں۔“
ناچار معاذ نے پھر سے وہی گینگ اکٹھا کیا کسی کو بھی خبر دیے بغیر۔

(جاری ہے)

ان سب کو ہوٹل میں چھوڑ کر حرا کو لیے وہ چل پڑا… گاڑی میں بیٹھی حرا وسوسوں کا شکار تھی۔
                                          ###
صرف آیان تھا جو یکسوئی سے ٹی وی دیکھ رہا تھا۔ ماما نے اسلام آباد سے سارہ کو بلوا لیا تھا۔ پاپا،ماما اور سارہ کافی دیر سے اس کی اور صوفیہ کی متوقع منگنی کو ڈسکس کر رہے تھے۔
مہران لیپ ٹاپ کھولے بے مقصد فضول سے آن لائن گیمز کھیل رہا تھا۔
اسے رہ رہ کر صوفیہ پر غصہ آ رہا تھا۔ کیا ضرورت تھی انکل شیراز کی کنواری بیٹی ہونے کی۔ نہ وہ ہوتی،نہ اس پر اتنا دباؤ ڈالا جاتا اس سے شادی پر۔ وہ آرام سے انتظار کرتا رہتا،وہ برے برے منہ بنا رہا تھا۔
”پاپا! آپ انکل سے کہہ دیں ہم کل آئیں گے ان کے گھر۔“ سارہ نے شاید سب معاملات نبٹا لیے تھے۔
آیان نے اسے آنکھ ماری۔
”ٹھیک ہے۔
“ پاپا نے فون ہاتھ میں پکڑا۔
”بیٹا! فرقان کا انتظار کر لیتے ہیں۔“ ماما نے سارہ کے شوہر کا نام لیا۔
”ماما! وہ ایک ہفتے تک نہیںآ سکتے۔ کیا ضرورت ہے ان کا انتظار کرنے کی۔“
”میرا خیال ہے اس کا انتظار کر لینا چاہیے۔“ مہران نے زور دے کر کہا۔
ڈاکٹر خاور فون ہاتھ میں لیے باری باری دونوں کی طرف دیکھ رہے تھے۔ ”بتاؤ بیٹا سارہ! میں کیا کروں۔
”پاپا! آپ کر دیں انہیں فون۔“
ڈور بیل کی آواز صرف آیان نے ہی سنی۔ ناچار اسے ہی اٹھنا پڑا لیکن جنت پہلے ہی دروازہ کھول چکی تھی۔
”ہمیں ڈاکٹر خاور سے ملنا ہے۔ انہوں نے ہماری بہت مدد کی تھی۔ میری بہن کو اپنے گھر میں رکھا تھا جب…“
لاؤنج میں بیٹھے مہران نے لیپ ٹاپ ایک طرف پھینکا اور لپک کر دروازے تک آیا۔
آیان انہیں اندر لا رہا تھا۔
مہران وہیں کھڑا ہو گیا اور معاذ کے پیچھے چھپنے کی ناکام کوشش کرتی حرا…
سفید کرتا اور چوڑی دار پاجامے میں وہ پہلے سے زیادہ کیوٹ لگ رہی تھی۔ لاؤنج میں بیٹھے سب ان کی طرف دیکھنے لگے۔ ڈاکٹر خاور حرا کو پہچان کر فوراً اٹھے۔ فون ابھی ان کے ہاتھ میں ہی تھا۔
جب وہ باری باری سب کو سلام کر رہی تھی تو اس تک آ کر رک گئی۔ دونوں نے ایک دوسرے کو مسکرا کر دیکھا… پہلی بار!!!
وہ دونوں جان گئے تھے کہ وہ دونوں ایک دوسرے کے لیے کیا بن چکے ہیں…!
                                  #…#…#

Chapters / Baab of Chalo Jaane Do By Sumaira Hamed