Episode 4 - Chalo Jaane Do By Sumaira Hamed

قسط نمبر 4 - چلو جانے دو - سمیرا حمید

”جلدی آؤ حرا!“معاذ کی چوتھی بار کال آئی۔ ”سب آ چکے ہیں۔ ایک تم ہی نہیں آئی۔ کہاں ہو تم؟ فوجی ہمیں یہاں سے جلدی نکلنے کے لیے کہہ رہے ہیں وہ راستہ کلیئر کروا رہے ہیں۔ میں گاڑی آگے لے کر جا رہا ہوں۔ تم ذرا تیز تیز چلو۔“
وہ تیز کہاں سے چلتی،دوبار پھسل چکی تھی گاڑیاں آگے پیچھے پھنسی کھڑی تھیں۔ لگتا تھا اب ہر شخص کو جانے کی جلدی ہے۔
ہلکی ہلکی برف باری جاری تھی۔ رکی ہوئی ٹریفک میں کبھی کبھی برائے نام حرکت پیدا ہو جاتی۔ شاید راستہ آگے سے جام تھا،پھر ان میں تھوڑی سی زیادہ حرکت نظر آنے لگی اور گاڑیاں آگے پیچھے تیزی سے حرکت کرنے لگی۔ اب تو وہ سڑک پر پاؤں بھی نہیں رکھ سکتی تھی۔ ناچار وہ برف کے ڈھیر پر بیٹھ گئی۔ کچھ دیر بیٹھنے کے بعد اور پھر تھوڑا بہت جتنا راستہ مل رہا تھا چلنے لگی۔

(جاری ہے)

عجیب مشکل تھی۔ بیگ میں رکھا فون بار بار بج رہا تھا۔ اندھیرا گہرا ہو گیا تھا۔ اسے ڈر تھا کہ وہ ضرور الجھ کر پیچھے جا گرے گی۔ گو وہ ایسی خطرناک کھائیاں نہیں تھیں،پھر بھی گرنے کا خوف الگ تھا۔
اچانک ایک زور دار دھماکا سا ہوا اور وہ خوف سے بری طرح گر پڑی۔ برف کے ڈھیر میں شاید کوئی ٹھوس چیز دبی ہوئی تھی،جو اس کی کمر پر بری طرح لگی۔
اٹھ کر سنبھلنے پر درد کی ایک تیز لہر اس کی کمر میں اٹھی۔ دھماکے کی آواز سے اوسان الگ خطا تھے۔ گاڑیوں میں سے لوگ نکل نکل کر سامنے کی طرف دیکھ رہے تھے۔
”حرا! تم ٹھیک ہو؟“معاذ کی گھبرائی ہوئی آواز اسے فون پر سنائی دی۔ وہ رونے لگی اور وہ گھبرا گیا۔ ”دو گاڑیاں الٹ گئی ہیں۔“
”کیا؟“ وہ درد بھول کر چلائی۔
”ہاں… تم تو حادثے والی جگہ کے پاس نہیں ہونا،کہاں ہو تم۔
”مجھے نہیں معلوم،میں برف پر بیٹھی ہوں۔ میں گر بھی گئی۔ کمر میں درد ہے بہت۔ آگے جانے کا راستہ نہیں ہے۔ آپ کہاں ہیں؟“
”لگتا ہے تم اس جگہ سے کافی دور ہو۔جہاں گاڑیاں الٹی ہیں۔ تم وہیں بیٹھی رہو۔ میں کچھ کرتا ہوں،میں نے باقی سب کو ریسٹ ہاؤس بھیج دیا ہے۔ میں اکیلا یہاں تمہارا انتظار کر رہا تھا۔“
وہیں بیٹھے بیٹھے اسے کافی دیر ہو گئی۔
افراتفری میں مزید اضافہ ہو گیا۔ ریسکیو ٹیم آ چکی تھی۔ وہ لوگ مستعدی سے ادھر ادھر مصروف ہو گئے۔ وہ لوگوں کو گاڑیوں میں پرسکون بیٹھنے کے لیے کہہ رہے تھے۔ پیدل اور گاڑیوں دونوں کے لیے آگے جانا ناممکن تھا۔
”میڈم ! آپ ٹھیک ہیں؟“ ایک فوجی اس کے پاس آیا۔
”نہیں۔“ اس نے رونی صورت لیے کہا۔ ”میں گر گئی ہوں اور مجھے وہاں جانا ہے۔
“ اس نے ہاتھ سے بلاک سڑک کی طرف اشارہ کیا۔ ”میری فیملی وہاں ہے اور میں یہاں اکیلی ہوں۔“
فوجی نے اس کے ہاتھ کے اشارے کی طرف دیکھا۔ ”وہاں دو گاڑیاں الٹ چکی ہیں۔ جب تک کرین نہیں آتی،سڑک کلیئر نہیں ہو گی۔“
”کب آئے گی کرین؟“ اسے لگا یہی کوئی پندرہ بیس منٹ تک آ جائے گی۔
”کل تک شاید ہی یہ سڑک کلیئر ہو۔“
”کل تک…“ وہ چلائی۔
جلدی سے معاذ کو فون کیا ساری صورتحال بتائی۔ معاذ الٹا خود پریشان ہو گیا۔
فوجی لوگوں کو گاڑیوں میں سے نکلنے کا کہہ رہے تھے۔ لوگ گاڑیوں میں ہیٹر آن کیے بیٹھے تھے۔ پٹرول ختم ہوتے ہی ہیٹر بند ہو جاتے اور ان کی گاڑیاں بنا پٹرول کے وہیں بند کھڑی رہتیں۔ وہ بار بار انہیں یہی سمجھا رہے تھے،گاڑیوں میں لاک رہنے سے ان پر غنودگی طاری ہونے کا خطرہ تھا۔
ہیٹر بند ہوتے ہی نیند میں ان کے ساتھ کچھ بھی ہو سکتا تھا۔ خاص کر چھوٹے بچوں کے ساتھ۔ لوگ گاڑیاں لاک کرکے مال روڈ کے ہوٹلز کی طرف بھاگے۔ حسب معمول مال کے ہوٹلز ایسے ہی کسی واقعے کے انتظار میں تھے۔ انہوں نے موقع دیکھتے ہی کرائے پانچ چھ گنا بڑھا دیے۔ وہ ٹوٹے پھوٹے کمرے جن کے کرایے سردیوں میں چار،پانچ سو سے زیادہ نہیں ہوتے تھے،اب سات،آٹھ ہزار ہو گئے تھے۔
لوکل ویگنوں اور ٹیکسیوں میں بیٹھے لوگ زیادہ پریشان تھے۔
”بیٹا! آپ ٹھیک ہیں؟“ وہ سردی سے کانپ رہی تھی اور کمر کا درد الگ۔
”نہیں…“ اس نے صاف کہا۔ اس کے ہونٹ نیلے ہو گئے تھے اور رونے سے آنکھیں سرخ۔
”ادھر آئیں میرے ساتھ۔“ وہ ان کے پیچھے چلتی ایک فوجی جیپ تک آئی۔
”یہاں بیٹھئے…“ وہاں تین چار خواتین پہلے سے ہی موجود تھیں اور گرم دودھ پی رہی تھیں۔
ایک کپ حرا کو بھی دیا۔
”آپ کا نام کیا ہے بیٹا؟“
”حرا!“ اس کی آواز بری طرف کانپ رہی تھی۔
”حرا بیٹا! پریشان مت ہوں۔ میں ڈاکٹر خاور ہوں۔“
”میری کمر میں درد ہے،میں گر گئی تھی۔“
”اوہ… ٹھنڈ کی وجہ سے زیادہ درد محسوس ہو رہا ہوگا۔ میں آپ کو پین کلر نہیں دے سکتا،جب تک اچھی طرح سے چیک اپ نہ ہو جائے۔ آپ کی فیملی…“
اس نے سر سے بلاک سڑک کی طرف اشارہ کیا۔
”میں یہاں اکیلی ہوں… اس طرف… یہیں وہ لوگ…“
وہ سمجھ گئے۔ ”پریشان مت ہو بیٹا! ایک تو بچے آپ لوگ کسی کی بات نہیں سنتے۔ کب سے الرٹ دے رہے تھے کہ اس موسم میں گھروں میں رہیں۔“
”میں لاہور سے آئی ہوں۔“
”بیٹا! رات تک تو یہ راستہ کلیئر نہیں ہوگا۔ آپ اکیلی ہو۔ ہوٹل بھی نہیں جا سکتیں۔ میرا گھر یہاں سے کچھ دور ہے۔ یہ پانچ لوگ میرے ساتھ جا رہے ہیں۔
آپ بھی چلیں۔ یہاں مجھے سب جانتے ہیں۔ قریب ہی میرا ہسپتال ہے۔ آپ اپنی فیملی سے پوچھ لیں۔“
اس کا تو تھوڑا بہت چلتا دماغ بھی ماؤف ہو چکا تھا اگر معاذ وغیرہ کچھ نہ کر سکے تو وہ کیا کرے گی۔ اس نے معاذ کو فون کیا۔ ساری صورت حال بتائی،پھر معاذ کی ڈاکٹر خاور سے بات کروائی۔
”ٹھیک ہے۔ تم جاؤ ان کے ساتھ۔“ معاذ نے پانچ منٹ اسے ہولڈ کروانے کے بعد کہا۔
”میں نے یہاں کھڑے فوجیوں سے ان کے بارے میں پوچھا ہے۔ سب جانتے ہیں انہیں،وہ قابل اطمینان ہیں۔ تم جاؤ ان کے ساتھ،میرا تمہارے پاس آنا ناممکن ہے۔“
”میں انہیں ساتھ لے کر جا رہا ہوں۔“ ڈاکٹر خاور نے ان پانچ افراد کی طرف اشارہ کرکے ایک فوجی افسر کو بتایا۔
کافی دیر چلتے رہنے کے بعد ڈاکٹر خاور کے گھر پہنچے۔ کھانا کھلا کر ان کی ملازمہ جنت،حرا اور ایک دوسری عورت کو ایک کمرے میں لے آئی۔ باقی لوگ ہال میں لگے بستر پر پہلے ہی ڈھیر ہو چکے تھے۔ بیڈ پر گرتے ہی وہ سو گئی۔ اس کی کمر بہت دکھ رہی تھی۔ گرمائش ملتے ہی درد کم ہونے لگا۔ اس میں اتنی ہمت بھی نہیں تھی کہ اٹھ کر واش روم تک ہی چلی جاتی۔
                                    ###

Chapters / Baab of Chalo Jaane Do By Sumaira Hamed