Episode 3 - Chalo Jaane Do By Sumaira Hamed

قسط نمبر 3 - چلو جانے دو - سمیرا حمید

رات کا کھانا کھانے سے پہلے وہ سب باہر کا ایک اور چکر لگا آئے تھے۔ نیو مری،کشمیر پوائنٹ،مال روڈ پر وہ ایک بار جا کر بار بار جا رہے تھے۔ سب کچھ ان کے لیے نیا تھا اور وہ سب بھرپور انجوائے کر رہے تھے۔ وہ ہر بار نئی سے نئی چیز دریافت کر لیتے۔ برف سے ڈھکے چھوٹے بڑے گھر،دھند میں لپٹے پہاڑ اور درختوں اور برف سے ڈھکے رہائشی گھر۔ پتلی گول سڑکیں،کبھی نیچے تو کبھی اوپر،ایک دم سیدھی اور اچانک سے تنگ اور پتلی۔

اس دن وہ سب دریائے نیلم گئے۔ دوپہر کا کھانا وہیں کھایا اور رات کا کھانا کھانے سرشام ہی مین مال پر آ گئے۔ جرار اور معاذ کا مشترکہ خیال تھا کہ مال روڈ سے بہتر جگہ تفریح کے لیے کوئی اور نہیں۔
”السلام علیکم لالا جی!“ جرار نے دور سے ہی ہاتھ سر تک لے جا کر ہانک لگائی۔

(جاری ہے)

”پورے پاگل لگتے ہو۔“ مدیحہ کو اس کی یہ حرکت بری لگتی تھی۔
”سلام کرنا پاگل پن ہے؟“وہ حیران ہوا۔
”مسخرے لگتے ہو پورے دیکھو! وہ خان صاحب بھی ہنس رہے ہیں۔“
”ہاں تو! میں آیا ہی دنیا میں دوسروں کو خوش کرنے کے لیے ہوں۔“
موسم آبر آلود تھا ایسا لگ رہا تھا،ہر چیز دھواں چھوڑ رہی ہے۔ ایک ایک،دودو کمروں پر مشتمل ہوٹلوں کے باہر کاؤنٹرز پر پکتے کھانوں میں خاص کر تکے،کبابوں اور سجی کی خوشبوئیں بہت دلفریب محسوس ہو رہی تھیں۔
ابر آلود گہری شام کی دھندلاتی روشنیاں اور بے فکر لوگوں کی بے فکر چہل قدمی اس شام کا حسن تھا۔
معاذ نے سب کو بڑی بڑی آئس کینڈی لے کر دی۔
”واہ!“کینڈی کھاتے کھاتے ہر دو منٹ بعد معاذ کے منہ سے نکلتا،مال پر چلتے چلتے لوگوں کا رش انتہا تک بڑھ گیا،ہوٹلوں کے ایجنٹ ہر نئے آنے والے کے پیچھے بھاگتے ہاتھ پکڑ کر اس طرف گھسیٹتے بھی…
”تمہارے ابا تو کہہ رہے تھے اس موسم میں پاگل ہی نکلتے ہیں۔
“معاذ نے حرا اور مدیحہ کو مخاطب کیا۔ ”یہ ہزاروں پاگل ہیں کیا؟“
”یہ ہزاروں لوگ نہیں،ان کے ابا۔“ شامل نے اپنا فرض سمجھا اس بات کا جواب دینا۔
”شٹ اپ!“مدیحہ سے پہلے حرا چلائی۔
زیادہ تر لڑکے لڑکیوں کے گروپس تھے۔ اس موسم میں بوڑھے تو خیر کیا نکلتے۔ کپلز کی تعداد بھی بہت زیادہ تھی۔ زیادہ تر کا تعلق مری،پنڈی،اسلام آباد اور قریب کے ہی دوسرے علاقوں سے تھا۔
ایلیٹ کلاس زیادہ نظر آ رہی تھی۔ لڑکوں کا ایک گروپ ان ٹرالیوں کو جو وہاں آنے والوں کو سامان،بچوں یا ضعیف افراد کو کرائے پر ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جانے کے لیے استعمال کی جاتی ہیں،غلط استعمال کر رہے تھے۔ ایک بیٹھتا ایک گھسیٹتا،پچھلے آدھے گھنٹے سے وہ مال پر یہی تماشا کر رہے تھے۔ساتھ بے ہودہ ”ہو ہو ہا ہا“ الگ سے،چلنے پھرنے والے بری طرح بے زار تھے ان کے اس بے ڈھنگے شوق سے…
مال سے زیر زمین مارکیٹ کی ایک دُکان سے چپلی کباب اور دوسری دُکان سے کڑاہی کھا کر وہ شاپنگ کے ارادے سے ادھر ادھر دُکانوں کا جائزہ لینے لگے۔
معاذ پہلے کہہ چکا تھا،جو فارغ ہوتا جائے گاڑی کے پاس آتا جائے۔ گاڑی وہاں سے کافی دور پارک تھی۔ معاذ جہاں تک سہولت سے ڈرائیونگ کر سکتا تھا،وہ وہاں تک کرکے گاڑی پارک کر دیتا تھا۔ ان گول گول بل کھاتی سڑکوں پر وہ گاڑی نہیں چلا سکتا تھا۔
حرا ایک دُکان میں کافی دیر سے کُرتے دیکھ رہی تھی۔ وہ فیصلہ نہیں کر پا رہی تھی کہ کُرتا لے یا جیولری۔
وہ چاہتی تھی اپنی دوست کے لیے ایک جیسی ہی چیزیں لے لے۔ باہر برف باری شروع ہو چکی تھی۔ شام کا اندھیرا گہرا ہونے لگا تھا۔ مال پر افراتفری سی شروع ہو گئی تھی۔ حرا نے سر بال نکال کر دیکھا۔ پہلی برف باری انہوں نے ریسٹ ہاؤس میں دیکھی تھی اور دل کھول کر مزا کیا تھا،اس نے جلدی سے اپنا بیگ چیک کیا،اس کے پاس پیسے کم تھے۔ کچھ دیر پہلے نمل اس کے ساتھ ہی اس دکان پر مختلف چیزیں چیک کر رہی تھی۔
اب وہ غائب تھی۔ باہر نکل کر اس نے ایک دو دُکانوں میں جھانک کر مدیحہ کو دیکھا مگر نہ وہاں مدیحہ تھی نہ ہی کوئی اور۔ گروپ کی صورت تو انہوں نے پہلے بھی کبھی شاپنگ نہیں کی تھی۔ کوئی کہیں ہوتا،کوئی کہیں۔
”بیٹا! آپ مال کے ہی کسی ہوٹل میں رہائش پذیر ہو؟“ وہ کُرتوں والی دُکان پر واپس آئی کہ ایک دو ہی خرید لے،جب کام کرتے بزرگوار نے پوچھا۔
”نہیں…“ اس نے سر نفی میں ہلایا۔ مال پر برف باری کا ہلا گلا انتہا کو پہنچ چکا تھا۔
”اسلام آباد سے آئی ہو تو جلدی نکل جاؤ۔برف باری میں سڑک پر پھسلن کی وجہ سے روڈ بند ہو جاتے ہیں اور…“
اسلام آباد کے لیے نفی میں سر ہلاتی اگلی بات سنتے ہی وہ تیزی سے باہر کی طرف لپکی۔ باہر بھی افراتفری کا ہی عالم تھا۔ اس کا فون بھی بج رہا تھا لیکن تیزی سے قدم جما جما کر چلتے ہوئے وہ بیگ میں سے فون نہیں نکال سکتی تھی۔
مال پر گاڑیوں کی لمبی لائن اسے نظر آ گئی۔ گاڑیوں کے ہارن،لوگوں کا شور،اچانک ہی منظر کچھ کا کچھ ہو گیا۔ گاڑیوں کے درمیان سے وہ بمشکل آگے بڑھنے لگی۔
”کہاں ہو۔ جلدی آؤ۔“ مسلسل بجتے فون کو اس نے ایک جگہ رک کر سنا۔
”آ رہی ہوں۔“ کہہ کر وہ تیزی سے چلنے کی کوشش کرنے لگی۔
مال کی مین سڑک اس نے عبور کر لی تھی۔ اب بل کھاتی گول نیو مری کی طرف جانے والی سڑک جس کے ایک طرف پہاڑ تھا،درمیان میں چھوٹی سی سڑک اور دوسری طرف کھائیاں اور سڑک کے انتہائی کنارے پر برف تھی،وہ چلتی کہاں برف کے اوپر۔
جیسے تیسے کرکے وہ کنارے کنارے چلنے لگی۔ گاڑیوں میں بیٹھے لوگ اسے عجیب نظروں سے دیکھ رہے تھے،چلنے والوں میں سے وہ اکیلی ہی لڑکی تھی جو جلدی میں بھی تھی،بوکھلائی ہوئی بھی اور پریشان بھی۔

Chapters / Baab of Chalo Jaane Do By Sumaira Hamed