بلوچستان کی تحصیل دکی میں لونی، مری قبائل و کنٹریکٹرز کوئلے کی کانوں کے تنازع کے حل پر متفق ہوگئے، معاہدہ بدھ کو طے پائے گا

کوئلے کی تمام کانوں کی بحالی سے 30 ہزار مقامی افراد کو روزگار ملے گا اورسالانہ 30 ارب روپے کی آمدن ہوگی، تنازع کے حل اور کانوں کی بحالی سے علاقے میں خوشحالی اور ترقی کے نئے دور کا آغاز ہوگا، حکام

اتوار 3 دسمبر 2006 18:56

لورالائی + اسلام آباد (اردوپوائنٹ اخبار تازہ ترین03دسمبر2006 ) بلوچستان کے ضلع لورالائی کی تحصیل دکی میں لونی اور مری قبائل و کنٹریکٹر گزشتہ 33 سال سے کوئلے کی کان کے تنازع کے حل پر متفق ہوگئے جس کے تحت بدھ کو معاہدے پر دستخط کر دیئے جائیں گے اس سلسلے میں کوئٹہ میں تقریب منعقد ہوگی جس میں تمام فریقین اس معاہدے کی دستاویزات پر دستخط کریں گے جبکہ دکی میں معاہدے کے تحت کوئلے کی تمام کانوں کی بحالی سے 30 ہزار مقامی افراد کو روزگار ملے گا اوراس سے سالانہ 30 ارب روپے حاصل ہوں گے جبکہ کوئلے کی کانوں کی حفاظت کیلئے سینکڑوں سکیورٹی اہلکار و قبائلی افراد تعینات کئے جائیں گے جبکہ کانوں کی بحالی کیلئے علاقے میں اقتصادی سرگرمیوں کو فروغ ملے گا اور وہاں ترقی و خوشحالی کے نئے دور کا آغاز ہوگا۔

(جاری ہے)

لورالائی میں لنی اور مری قبائل و کنٹریکٹرز کے درمیان گزشتہ 33 سال سے جاری کوئلے کی کانوں کے حوالے سے تنازع کے حل پر اتفاق رائے طے پا گیا ہے جبکہ اس سلسلے میں بدھ کو معاہدے پر دستخط کر دیئے جائیں گے تاہم حکام کے مطابق اس معاہدے سے چمالنگ کان کے پرانے تنازع کے پرامن حل کیلئے راہ ہموار ہوگی جبکہ حکومت کی زبردست کوششوں کے باعث تمام سٹیک ہولڈرز لونی، مری قبائل اور کنٹریکٹرز کے درمیان معاہدہ ممکن ہوا۔

حکام نے مزید بتایا کہ حکومت کی طرف سے کوئلے کی کان پر کام شروع کرنے اورقبائل و کنٹریکٹرز کے درمیان اختلافات کے خاتمے کیلئے مشاورتی و عالمی عمل کا آغاز فریقین کی باہمی رضامندی سے کیا گیا۔ حکام نے مزید بتایا کہ چمالنگ کول مائن کی بحالی علاقہ کی ترقی و خوشحالی کیلئے اہم کردار ادا کرے گی اوراس سے ہزاروں افراد کو روزگار ملے گا اور علاقے میں اقتصادی سرگرمیوں کوبھی فروغ ملے گا۔

حکام کے مطابق پہلے مرحلے میں زمیندار اور رفیق نامی کوئلے کی کانوں میں کام کا آغاز ہوگا اوراس سلسلے میں 6 دسمبر بروز بدھ کوئٹہ میں فریقین کے درمیان معاہدے پر دستخط کئے جائیں گے جبکہ کوئلے کی ان دو کانوں کے چلنے سے نہ صرف 10 ہزار مقامی افراد کو روزگار ملے گا بلکہ ان سے روزانہ چھ ہزار ٹن کوئلہ نکلے گا جس سے قومی خزانے کو 2 کروڑ 40 لاکھ روپے (24 ملین) کا فائدہ ملے گا اور ایک محتاط اندازے کے مطابق جب علاقے میں تمام کانیں بحال ہو جائیں گی تو اس سے سالانہ 30 ارب رپے حاصل ہوں گے جس سے حکومت بلوچستان، کنٹریکٹرز اور قبائل کو فائدہ پہنچے گا جبکہ اس سے حاصل ہونے والی رقم کا ایک بڑا حصہ علاقے میں ترقیاتی کاموں اورمتعلقہ کاروباری سرگرمیوں پر خرچ کیا جائے گا۔

حکام کے مطابق کوئلے کی کانوں سے حاصل ہونے والی رقم کاایک بڑا حصہ معاہدے کے مطابق مری قبیلے کو فراہم کیا جائے گا جبکہ تمام کانوں کی بحالی کے نتیجے میں 30 ہزار مقامی افراد کو روزگار ملے گا جبکہ اس سلسلے میں بلوچستان حکومت کی نگرانی میں ایک کمیٹی تشکیل دی گئی ہے جس میں تمام فریقین، ضلعی انتظامیہ کے اور دیگر نمائندے شامل ہیں کمیٹی علاقے میں ترقیاتی پراجیکٹس کے حوالے سے منصوبہ بندی کرے گی اور ان پر عملدرآمد کو یقینی بنائے گی۔

جبکہ ورکرز ویلفیئر فنڈ کیلئے بھی رقم مختص کی گئی ہے جس کے تحت کارکنوں کی رہائش، صحت، پانی و بجلی کی سہولیات کی فراہمی پر خرچ کیا جائے گا جبکہ وفاقی حکومت کی طرف سے 150 ملین روپے فی ماہ کی اضافی رقم بھی فراہم کی جائے گی۔ ذرائع کے مطابق تنازع پر اتفاق رائے پیدا کرنے، ایک دوسرے کا نکتہ نظر جاننے کیلئے کیلئے حکومت اور سٹیک ہولڈرز کے درمیان مذاکرات کے کئی تفصیلی دور کوئٹہ، الاہی اور کوہلو میں منعقد ہوئے جبکہ اس سلسلے میں تمام پارٹیوں کیلئے قابل تسلیم ثالث مقرر کئے گئے جنہوں نے فریقین میں تنازع کے حل کیلئے اتفاق رائے پیدا کرنے میں انتہائی اہم کردار ادا کیا۔

اس سلسلے میں مری قبائل کی نمائندگی سید انور شاہ، لونی قبائل کی آغا سید عبدالحلیم اور کنٹریکٹرز کی نمائندگی باز محمد پانیزئی نے کی جن کی کوششوں کے تحت تمام جاری تنازعات کے حل کیلئے تمام سٹیک ہولڈرز کے درمیان اتفاق رائے طے پایا ہے۔ حکام کے مطابق چمالنگ تنازع پر بات چیت نے مخالف گروپوں کے ایک ساتھ ایک چھت تلے بیٹھنے اور قبائل کے درمیان تنازع کے حل کیلئے موقع فراہم کیا۔

یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ پہلے کئی معاہدے ہئے لیکن ان میں سے کسی کے تحت اس تنازع کو حل نہیں کیا جا سکا۔ واضح رہے کہ چملانگ پہاڑی سلسلہ کوہلو کے شمال میں 40 سے 50 کلو میٹر کے فاصلے پر ضلع لوارالائی کی تحصیل دکی میں واقع ہے اس علاقے کی اہمیت اس وقت واضح ہوئی جب 33 سال قبل مقامی لوگوں نے ایک مرتبہ کوئلے کی کان برآمد کی جبکہ چملانگ کوئلے کے ذخائر 7X60 کلو میٹر کے علاقے پر پھیلے ہوئے ہیں لیکن بدقسمتی کی بات ہے کہ لونی اور مری قبائل کے درمیان ملکیت کے تنازع پر 50 افراد کی جان لے لی اور اس دروان دونوں اطراف سے سینکڑوں افراد زخمی ہوئے۔

حکام کے مطابق چملانگ میں کوئلے کی کانوں کی حفاظت کیلئے سکیورٹی کے خصوصی انتظامات کئے گئے ہیں اور اس سلسلے میں لونی قبائل کے پاس کی حفاظت کی ذمہ داری ہونے کے علاوہ اضافی فورس بھی تعینات کی جائے گی جس میں مری قبائل سے 1500 افراد، 500 لیویز اہلکار اور 200 بلوچستان کانسٹیبلری اہلکار شامل ہوں گے۔ ذرائع کے مطابق لونی اور مری قبائل کے درمیان رقم کی منصفانہ تقسیم کو یقینی بنانے کیلئے ایک خصوصی کمیٹی بھی قائم کی گئی ہے جس میں لونی اور مری قبائل کے علاوہ کوہلو اور لورالائی ضلعی انتظامیہ کے نمائندے بھی شامل ہوں گے۔ جبکہ معاہدے کے تحت سکیورٹی کیلئے تعینات افراد کو کوئلے کی کانوں سے حاصل ہونے والی آمدنی سے تنخواہیں دی جائیں گی۔

متعلقہ عنوان :