سپریم کورٹ نے دیت کے حوالے سے لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کو کالعدم قرار دے دیا۔ حکومت دیت کی ادائیگی کے لئے فنڈ قائم کرے اور ایسا تیکنیکی نظام وضع کرے جس سے ضرورت مند ملزمان کو آسانی میسر آ سکے۔ پانچ رکنی لارجر بنچ کا فیصلہ

جمعرات 14 دسمبر 2006 17:38

اسلام آباد (اردوپوائنٹ اخبار تازہ ترین14دسمبر2006 ) سپریم کورٹ نے دیت سے متعلق لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے حکومت کو ہدایت کی ہے کہ وہ دیت کی ادائیگی کے لئے فنڈ قائم کرے اور ایسا تیکنیکی نظام وضع کرے جس کا مقصد ان ملزمان کیلئے ہو جو دیت ‘ ارش اور دمان کی رقمیں کمزور معاشی ڈھانچے کی وجہ سے 3 ماہ میں نہیں ادا کر سکتے اور جیلوں میں سڑتے رہتے ہیں۔

یہ فیصلہ سپریم کورٹ نے جمعرات کے روز پنجاب حکومت کی طرف سے لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف دائر درخواست کی سماعت کے بعد جاری کیا۔ سماعت چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری ‘ جسٹس جاوید اقبال ‘ جسٹس عبدالحمید ڈوگر ‘ جسٹس شاکر اللہ جان اور جسٹس سید سعید اشہد پر مشتمل پانچ رکنی لارجر بنچ نے کی ‘ سماعت دو روز تک جاری رہی۔

(جاری ہے)

عدالت عظمیٰ نے اپنے فیصلے میں مزید کہا ہے کہ قوانین مرتب کرتے وقت اس بات کو یقینی بنایا جائے جس کے مطابق ملزمان کو نرم شرائط پر قرضے دئیے جائیں تاکہ وہ مقتول کے قانونی ورثاء کو رقم کی ادائیگی کر کے مطمئن کر سکے۔

حکومت ملزمان کو ہو سکے تو سماجی تنظیموں کے ذریعے ملازمت دے تاکہ وہ قرضے کی رقم باآسانی ادا کر سکیں۔ قوانین میں یہ ترمیم بھی کی جائے کہ اس طرح کے دیت کے مقدمات میں ٹرائل کورٹ اس سوال کا بھی جائزہ لے سکے کہ آیا سزا پوری کرنے والوں کو پیرول پر رہا کیا جا سکتا ہے یا نہیں جو جیل میں رہ جاتے ہیں محض اس وجہ سے وہ ارشی ‘ دمان اور دیت کی رقم نہیں ادا کر سکتے۔

ملزمان جو کہ ارش اور دیت کی رقم نہیں ادا نہ کر سکنے کی وجہ سے جیلوں میں بند ہوتے ہیں انہیں تعزیرات پاکستان کی دفعات 331 کی سب سیکشن ون اور 337X کے تحت ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کے اطمینان کیلئے انہیں سیکیورٹی جمع کرانے کی اجازت دی جائے ۔ تین سال کے عرصے کے دوران اور حکومت انہیں ان کے وسائل اور پیداکردہ دوسرے فنڈز سے دیت اور ارش کی رقم جمع کرانے کے قابل بنائے ۔

وفاقی حکومت اس بات کو بھی یقینی بنائے کہ مقتول کے قانونی وارثان کے حقوق کا خیال رکھا جائے اور انہیں زخمی یا متاثر ہونے کے سبب دیت اور ارش کی رقم برابری کی بنیادپر تقسیم کرنے کیلئے قانون میں ترمیم کی جائے۔ وفاقی حکومت اس بات کا تعین کرے کہ آیا تعزیرات پاکستان کی دفعات کی دفعات 331 اور 337X کے تحت 3 سال کے عرصے کو بڑھا کر 7 سال کیاجا سکتا ہے کہ نہیں اس طرح سے دمان کے حوالے سے بھی 337Y تعزیرات پاکستان میں ترمیم کی جائے۔

درج بالا شرائط پرتمام اپیلیں نمٹائی جاتی ہیں تاہم معاملات کا میرٹ پر فیصلہ کرنے کے لئے انہیں دوسرے معزز بنچوں میں لگایاجائے۔ جبکہ عدالت عظمیٰ نے کریمنل پٹیشن 433/2002 میں فیصلہ دیتے ہوئے کہا کہ ظفر اقبال کی دیت کی رقم کا فیصلہ بھی درج بالا شرائط اور قانون کے مطابق کیا جائے جبکہ کریمنل پٹیشن نمبر 292l/2002 غیر موثر ہونے کی بناء پر خارج کی جاتی ہیں۔

یہ فیصلہ اس وقت تک قابل عمل رہے گا جب تک وفاقی حکومت دیت کے حوالے سے نئی قانون سازی نہیں کر دیتی‘ اس سے قبل مقدمے کی سماعت کے دوران ڈپٹی اٹارنی جنرل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ وفاقی حکومت نے دیت قوانین کے حوالے سے لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد اسلامی نظریاتی کونسل سے مشورہ مانگا تھا اسلامی نظریاتی کونسل سوائے ملزم کے باقی تمام لوگوں کی طرف سے دیت کی رقم ادا کرنے کو غیر اسلامی قرار دیا تھا ۔

انہوں نے کہا تھا کہ جو قتل کرے گا دیت کی رقم بھی وہی ادا کرے گا یہ دوسری بات ہے کہ حکومت بھی رقم دے سکتی ہے۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ 500 سے زائد لوگ جیلوں میں پڑے سڑ رہے ہیں کیونکہ ان کے پاس دیت ادا کرنے کیلئے کوئی رقم نہیں ہے۔ حکومت کوئی ایسی سکیم بنائے جس میں سماجی تنظیموں کو بھی شامل کیاجائے تاکہ ان لوگوں کو بھی سہولت میسر ہو سکے۔

سینئر جسٹس جاوید اقبال نے کہا کہ حکومت نے سپریم کورٹ کے حکم کی وجہ سے دیت کے قوانین جلد بازی میں بنائے اور اس سلسلے میں اسلامی نظریاتی کونسل نے بھی جلدبازی کا موقف اختیار کیا ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل نے اپنی رائے دیتے ہوئے وقت نہ تو شریعت کو پڑھا ہے اور نہ ہی اس پر غور و خوض کیا ہے۔ دیت کا مطلب مظلوم کو ریلیف دینا ہے نہ کہ ملزم کا فیصلہ کرنا ہے کہ وہ دیت کی رقم کہاں سے دے گا۔

ڈپٹی اٹارنی جنرل ناصر سعید شیخ نے مزید کہا کہ ہائی کورٹ نے جو فیصلہ دیا تھا وہ انہوں نے صرف آئین کی دفعات 337Y,337X,331 کو دیکھا ہے جو آئین کے منافی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہائی کورٹ نے صرف شریعت کے حوالے سے 60 صفحات لکھ ڈالے ہیں لیکن کہیں بھی انہوں نے صحیح رائے نہیں دی ہے۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ حکومت لوگوں کیلئے سہولت پیدا کرے اور کوئی سکیم تیار کرے۔

ہر بات پر سپریم کورٹ میں نہ آئیں اور دیت کے مسئلہ پر کسی سے کمپرو مائز نہیں کریں گے۔ عدالت نے بحث سمیٹتے ہوئے فیصلہ کے لئے کچھ وقت لگایا اور پونے تین بجے سہ پہر کو فیصلہ جاری کیا گیا ۔ درخواست حکومت پنجاب نے عابد حسین وغیرہ کے خلاف دی ہوئی تھی۔ درخواست گزاروں کی طرف سے محمد حنیف کھٹانہ ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب ‘ مسماة افشاں غضنفر اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب ‘ حافظہ عزیز‘ ایم ڈیطاہر ‘ سید علی حسن جیلانی ایڈووکیٹ ‘ ڈپٹی اٹارنی جنرل ناصر سعید شیخ ‘ ڈاکٹر محمد اسلم خاکی ایڈووکیٹ ‘ سرحد کے ایڈووکیٹ جنرل کی طرف سے محمد بلال ‘ بلوچستان کی طرف سے محمود رضا ایڈیشنل ایڈ ووکیٹ جنرل بلوچستان اور سندھ کی طرف سے محمد رفیق باجوانی پیش ہوئے ۔

فیصلے میں عدالت عظمیٰ نے لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا۔

متعلقہ عنوان :