لاپتہ افراد کیس‘ سپریم کورٹ کا سیکرٹری دفاع‘ داخلہ‘ ڈی جی کرائسز مینجمنٹ سیل اور اٹارنی جنرل کو 27اپریل کو ذاتی طور پر پیش ہونے کا حکم۔ایجنسیوں سمیت کوئی بھی قانون سے بالاتر نہیں‘ پارلیمنٹ کچھ نہیں کرتی اور سب کچھ سپریم کورٹ کے سر ڈال دیا جاتا ہے۔لاپتہ افراد کا معاملہ قانونی‘ انسانی اور اب بین الاقوامی معاملہ بن چکا ہے‘ سکیورٹی قوانین موجود ہونے کے باوجود ان افراد کا غائب کیا جانا اور طریقہ کار درست نہیں۔لاپتہ افراد کے کیس کی سماعت کرنے والے 3 رکنی بینچ کے سربراہ جسٹس جاوید اقبال کے ریمارکس

جمعہ 20 اپریل 2007 15:21

اسلام آباد (اردوپوائنٹ اخبار تازہ ترین20اپریل2007 ) سپریم کورٹ آف پاکستان نے ملک بھر سے لاپتہ افراد کیس میں نوٹسز جاری کرتے ہوئے سیکرٹری دفاع‘ سیکرٹری داخلہ‘ ڈائریکٹر جنرل نیشنل کرائسز مینجمنٹ سیل اور اٹارنی جنرل کو 27 اپریل کو ذاتی طور پر پیش ہونے کا حکم دے دیا ہے جبکہ کیس کی سماعت کرنے والے تین رکنی بینچ کے سربراہ جسٹس جاوید اقبال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ خفیہ ایجنسیوں سمیت کوئی بھی قانون سے بالاتر نہیں ہے‘ لاپتہ افراد کا معاملہ پارلیمنٹ میں بھی اٹھایا گیا تھا انہوں نے بھی ابھی تک کچھ نہیں کیا‘ پارلیمنٹ کچھ نہیں کرتی اور سب کچھ الابلا سپریم کورٹ کے سر ڈال دیا جاتا ہے‘ لاپتہ افراد کا معاملہ قانونی‘ انسانی اور اب بین الاقوامی معاملہ بن چکا ہے‘ سکیورٹی قوانین موجود ہونے کے باوجود ان افراد کا غائب کیا جانا اور طریقہ کار درست نہیں ہے‘ جذبہ جہاد سے سرشار 18 سے 20 سال کے نوجوانوں کو نجانے کس نے مائل کیا ہے‘ اس لئے وہ بھی غائب ہیں کوئٹہ میں دو افراد کے حوالے سے درخواست دائر ہوئی تھی بعد میں پتہ چلا کہ وہ تو افغانستان میں ہیں‘ لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے کمیشن بنانا پڑا تو بنائیں گے‘ لیکن کمیشن کے پاس کوئی جادو کی چھڑی تو نہیں ہے کہ وہ معاملے کو پلک جھپکنے میں حل کردے گا کمیشن کے افراد کہاں سے آئیں گے اور کیا کریں گے ‘ تمام افراد کی بازیابی کے لئے سپریم کورٹ کی طرف سے یقین دلاتا ہوں کوئی بھی پریشان نہ ہو پہلے بھی عدالت نے 41 افراد کو بھی تو بازیاب کرایا ہے۔

(جاری ہے)

انہوں نے یہ ریمارکس جمعہ کے روز ملک بھر سے لاپتہ افراد کے حوالے سے دائر درخواستوں کی سماعت کے دوران ادا کئے جسٹس جاوید اقبال‘ جسٹس عبدالحمید ڈوگر اور جسٹس میاں شاکر الله جان پر مشتمل تین رکنی بینچ نے سماعت کی درخواست گزار حیات نور خان کی طرف سے ڈاکٹر ظہیر الدین بابر اعوان‘ راشد رؤف کی طرف سے حشمت حبیب ایڈووکیٹ‘ ہیومن رائٹس کمیشن کی طرف سے عاصمہ جہانگیر ایڈووکیٹ اور سینیٹر فرحت الله بابر کے علاوہ حکومت کی طرف سے ڈپٹی اٹارنی جنرل راجہ ارشاد اور چوہدری محمد ارشد پیش ہوئے۔

ظہیر الدین بابر اعوان ایڈووکیٹ نے عدالت کو بتایا کہ وہ حیات نور خان کی طرف سے پیش ہورہے ہیں جن کے بیٹے کا نام نعیم نور خان ہے جسے حکومت نے اٹھالیا ہے۔ عدالت نے کہا کہ ابھی اس سلسلے میں ہمارے پاس کوئی درخواست نہیں ہے تاہم اگر ہوئی تو اس معاملے کو دوسرے لاپتہ افراد کے ساتھ کلپ کرکے سنیں گے۔ عاصمہ جہانگیر نے کہا کہ یہ انتہائی اہم معاملہ ہے اور اٹارنی جنرل کو خود آنا چاہئے تھا وہ ابھی تک نہیں آرہے ہیں۔

اس پر جسٹس جاوید اقبال نے کہا آپ پریشان نہ ہوں معاملے کو سنجیدگی سے لے رہے ہیں اور عدالت کے قلم میں کسی بھی قسم کی کوئی کمزوری نہیں ہے۔ عاصمہ جہانگیر نے مزید کہا کہ ابھی تک حکومت اس حوالے سے کوئی جواب نہیں دے رہی ہے آئی ایس آئی ‘ ایم آئی ‘ آئی بی کو بلوائیں اس پر جسٹس جاوید اقبال نے کہا کہ تمام ایجنسز ڈیفنس منسٹری کے تحت کام کررہی ہیں اور ابھی اس بات کا پتہ لگانا ہے کہ کیا یہ تمام لگ ایجنسیوں کے پاس ہیں بار بار یقین دلاتا ہوں کہ لاپتہ افراد کو ضرور بازیاب کرائیں گے۔

حشمت حبیب ایڈووکیٹ نے عدالت کو بتایا کہ وزارت داخلہ کے تحت ایک نیشنل کرائسز مینجمنٹ سیل کام کررہا ہے وہی اس طرح کے تمام معاملات کو دیکھ رہا ہے اسی کے ذریعے دنیا کے مختلف ممالک سے لوگوں کو لایا گیا ہے اس کے سربراہ بریگیڈیئر (ر) جاوید چیمہ ہے اس کو سمن بھیج کر بلوایا جائے۔ علاوہ ازیں تینوں حساس اداروں کے نمائندوں کو بھی بلوایا جائے کہ ان اداروں کے ذریعے لوگوں کو ہراساں کیا جارہا ہے۔

اس پر جسٹس جاوید اقبال نے کہا کہ ایجنسیاں بھی قانون سے بالاتر نہیں ہیں وقت آنے پر انہیں بھی طلب کیا جائے گا۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ کم عمر افراد کو کس نے جہاد کی طرف مائل کیا ہے جو وہ اس طرف کھچے گئے ہیں اور اب ان کا کوئی پتہ نہیں ہے کہ وہ کہاں ہیں۔ جو بھی قانون کی خلاف ورزی کرے گا اس کے خلاف کارروائی ہوگی۔ سینیٹر فرحت الله بابر نے کہا کہ آئی ایس آئی ہی سب آپریشن کررہی ہے یہ قومی سلامتی کا معاملہ ہے آئی ایس آئی جس اتھارٹی کے تحت کام کرتی ہے اس کی کاپی منگوائی جائے۔

اس پر جسٹس جاوید اقبال نے کہا کہ آپ نے یہ معاملہ پارلیمنٹ میں بھی تو اٹھایا تھا اس کا کیا بنا۔ انہوں نے اس سلسلے میں ابھی تک کچھ نہیں کیا۔ اس پر سینیٹر فرحت الله بابر نے کہا کہ یہ ایک تحریک التواء تھی وزارت دفاع سے پندرہ روز کے بعد مجھے ایک عام سا جواب ملا کہ یہ ایک سیکرٹ اور حساس معاملہ ہے لہذا اس کا جواب نہیں دیا جاسکتا ہے۔ سندھ ہائی کورٹ میں پچھلے سال سماعت کی تھی اس میں بھی ایجنسیوں کا ذکر تھا اس دوران وزارت دفاع نے بھی یہ کہا تھا کہ آئی ایس آئی دفاع سے ماورا ادارہ ہے جسٹس جاوید اقبال نے لاپتہ افراد کے وکلاء کو یقین دلایا کہ عدالت کوشش کرے گی کہ دو ہفتوں کے اندر لاپتہ افراد کو بازیاب کرالیا جائے گا۔

اس دوران ڈپٹی اٹارنی جنرل چوہدری محمد ارشد پیش ہوئے جن کو دیکھ کر جسٹس جاوید اقبال نے کہا کہ وزارت داخلہ سے آپ کو بڑی دیر کے بعد فون آیا ہے۔ جواب کب داخل کریں گے اور یہ آپ کے ہاتھ میں کیا ہے۔ اس پر انہوں نے عدالت کو بتایا کہ انہوں نے آرڈر وصول کرلیا ہے جلد ہی جواب دیں گے۔ جسٹس جاوید اقبال نے کہا کہ اب اس مقدمے کے تین پہلو بن چکے ہیں قانونی‘ انسانی اور بین الاقوامی پہلو شامل ہے سکیورٹی لاز موجود ہیں جب کسی شخص کو قانون کے مطابق روکا جاسکتا ہے تو اسے غیر قانونی طریقے سے کیوں اٹھایا جارہا ہے یہ طریقہ ٹھیک نہیں ہے۔

ڈپٹی اٹارنی جنرل راجہ ارشاد پیش ہوئے اور انہوں نے عدالت کو بتایا کہ وہ عدالت کی معاونت کے لئے چوتھی بار حاضر ہورہے ہیں اٹارنی جنرل سے ان کی ملاقات نہیں ہوسکی ہے وزارت داخلہ سے اور بریگیڈیئر (ر) چیمہ سے رابطہ کیا ہے اور انہوں نے کہا ہے کہ جواب ابھی تیار ہورہا ہے میں حیران ہوں کہ ابھی تک کسی قسم کا بھی انہیں کوئی جواب نہیں دیا گیا ہے۔

میرے اختیارات محدود ہیں میں عدالت کی مزید معاونت نہیں کرسکتا آئین کے آرٹیکل 9 اور 10 موجود ہیں جو عدالت کی رہنمائی کیلئے کافی ہیں میں ایک والد ہوں خاوند اور بھائی بھی ہوں۔ اس لئے بیٹے کا غم بھی سمجھتا ہوں اب سب کچھ اس لئے ہورہا ہے کہ اس ملک میں قانون کی عمل دراری نہیں اور اگر قانون کی عمل داری ہوتی تو اب تک وزارت داخلہ کو اس حوالے سے اپنا جواب داخل کردینا چاہئے تھا۔

عدالت کی اجازت سے ظہیر الدین بابر ایڈووکیٹ نے عدالت کو بتایا کہ کراچی سے حیات نور خان کے بیٹے جو کہ پی آئی اے میں کمپیوٹر انجینئر تھے 13جولائی 2004ء کو اٹھایا گیا اس حوالے سے اس وقت کے وزیر اطلاعات شیخ رشید احمد نے پریس کو بتایا تھا کہ امریکہ سے ای میل کے حوالے سے تبادلہ کیا گیا ہے اور نعیم محمد نور خان کو بھی گرفتار کیا گیا ہے اس کی باقاعدہ اخبارات میں تصویر بھی شائع ہوئی انہوں نے مزید کہا کہ احمد قلفان اور محمد نعیم خان کو امریکہ کے حوالے کرنے کے لئے پچاس پچاس لاکھ انعامی رقم مقرر کی ہوئی تھی 11اگست 2004ء شوکت سلطان کا بیان شائع ہوا تھا کہ جس میں انہوں نے کہا تھا کہ دہشت گردوں کا ایک نیٹ ورک پکڑا ہے جس میں ایک کمپیوٹر انجینئر سے بھی کافی معلومات حاصل کی گئی ہیں دو لاء آفیسرز آئے جن میں فیڈرل کونسل اور ڈپٹی اٹارنی جنرل شامل ہیں وہ کہتے ہیں کہ حکومت کہتی ہے کہ مطلوبہ شخص ان کی تحویل میں نہیں ہے آئین کے آرٹیکل 10میں کہا گیا ہے کہ گرفتار شدہ کسی بھی شخص کو 24 گھنٹوں کے اندر اندر عدالت میں پیش کرنا ضروری ہوتا ہے والد پوچھتا ہے کہ اس کا بیٹا کہاں ہے کیا اسے 50لاکھ ڈالرز میں بیچ تو نہیں دیا گیا اس کا بیٹا شادی شدہ ہے جس کا ایک بیٹا بھی ہے بیوی بھی اس کے بارے میں پوچھتی ہے کہ وہ اپنے بیٹے کو کیا بتائے کہ اس کا والد کہاں ہے اس معاملے کو تین سال گزر چکے ہیں اسے عدالت میں طلب کیا جائے ڈیفنس ہیون رائٹس کی چیئرپرسن آمنہ مسعود جنجوعہ نے کہا کہ 15 دسمبر چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چوہدری نے ایجنسیوں کو بلوایا تھا اور اس وقت سے اب تک کوئی کارکردگی نہیں ہوئی ہے اس پر جسٹس جاوید اقبال نے کہا کہ 41 افراد کو بازیاب کرایا گیا ہے پراگریس تو ہوئی ہے۔

آمنہ نے مزید کہا کہ سپریم کورٹ کے پاس ہی طاقت ہے کہ وہ ایجنسیوں کو طلب کرے اس پر جسٹس جاوید اقبال نے کہا کہ جس کو بھی بلانا پڑا بلائیں گے درخواست گزار نے مزید کہا کہ وزارت دفاع کا ان تمام حساس اداروں پر کوئی کنٹرول نہیں ہے تین ہفتوں کا عدالت نے اٹارنی جنرل کو وقت دیا تھا کہ ہم آج ان کی صورت بھی دیکھنے کو ترس گئے ہیں۔ جسٹس جاوید اقبال نے کہا کہ وزارت داخلہ کہتی ہے کہ یہ افراد ان کے پاس نہیں ہیں ہماری مشکلات دیکھیں پارلیمنٹ اس معاملے کو حل کرتی انہون نے نہیں کیا۔

آمنہ مسعود جنجوعہ کے وکیل شوکت عزیز ایڈووکیٹ نے کہا کہ اٹارنی جنرل نے کہا تھا کہ وہ لاپتہ افراد کے بارے میں تفصیل سے بتائیں گے فیلڈ کورٹ مارشل کو اگر لاپتہ افراد کے خلاف کوئی الزام ہے تو انہیں عدالت میں کیوں نہیں لاتے گوجرانوالہ جیل میں کئی افراد کو عمر قید کی سزا سنا کر ڈال دیا گیا ہے اور ہمیں اس فیصلے کی کاپی تک نہیں دی گئی ہے اور لاپتہ ہونے والے افراد کی تعداد بڑھ رہی ہے۔

جسٹس جاوید اقبال نے کہا کہ خدا کے فضل سے قانونی طور پر اس کے خلاف کارروائی کریں گے۔ پروسیجر مکمل ہونے دیں حالات مناسب نہیں جارہے ہیں تو اس پر شوکت عزیز ایڈووکیٹ نے کہا کہ حالات کو مناسب بھی تو آپ نے ہی کرنا ہے۔ جسٹس جاوید اقبال نے کہا کہ آپ تمام جزیات سے ہٹ کر سوچیں دو روپے کے لفافے میں بھی کوئی شکایت آتی ہے تو سپریم کورٹ اس پر کارروائی کرتی ہے۔ عدالت عظمیٰ نے مزید سماعت 27 اپریل بروز جمعہ تک ملتوی کرتے ہوئے سیکرٹری دفاع‘ داخلہ‘ ڈی جی کرائسز مینجمنٹ سیل اور اٹارنی جنرل کو ذاتی طور پر حاضر ہونے کا حکم دیا ہے۔