جھگڑوں اور جنگوں کا حل مسلمہ طور پر مذاکرات میں ہے ، صدر ایمنسٹی انٹرنیشنل فیاض الرحمان ۔۔عسکریت پسندوں کے ساتھ مصالحت کی باتیں کرنا محض بھولپن ہے ، سابق سکیورٹی چیف بریگیڈئیر شاہ محمود ۔۔۔ عسکریت پسندوں کو عام معافی دینا قطعی انصاف نہ ہو گا ، انصار بر نی

اتوار 12 اکتوبر 2008 12:19

واشنگٹن(اردوپوائنٹ اخبا ر تازہ ترین12 اکتوبر2008 ) انسانی حقوق کی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل پاکستان کے صدر کی جانب سے عسکریت پسندوں کو معاف کرنے اور ان کے ساتھ مذاکرات کرنے کا مطالبہ ایسے وقت سامنے آیا ہے جب نہ صرف ملکی سکیورٹی فورسز کی شدت پسندوں کے خلاف متواتر کارروائیاں جاری ہیں بلکہ مختلف لشکروں کی صورت میں کمر کس رہے ہیں وائس آف امریکہ کے ساتھ خصوصی انٹرویو میں ایمنسٹی انٹرنیشنل پاکستان کے صدر فیاض الرحمن نے کہا کہ یہ مطالبہ کسی ایک فرد کی سوچ نہیں بلکہ تنظیم کے بین الاقوامی سیکریٹیریٹ سے توثیق کے بعد اس کا اعلان کیا گیا ہے ۔

ان کا کہناتھا کہ لڑائی جھگڑوں اور جنگوں کا حل مسلمہ طور پر مذاکرات میں ہے تو اس میں تاخیر نہیں ہونی چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے شورش زدہ علاقوں میں انسانی زندگی مشکلات سے دوچار ہے اس لیے تنظیم کیسی تخصیص کے بغیر تمام گروہوں کے ساتھ بات چیت کا مشورہ دیتی ہے اور اس ضمن میں مصالحتی کردار کی بھی پیشکش کرتی ہے۔

(جاری ہے)

فیاض الرحمن نے کہا کہ جب سے پاکستان کے سابق صدر پرویز مشرف نے جارحانہ کارروائیاں شروع کی تب سے ملک میں امن و امان کی صورتحال خراب ہے اور کئی جانیں جا چکی ہیں اور لوگ بے گھر ہونے پر مجبور ہیں۔

پاکستان میں انسانی حقوق کے کارکن اور سابق نگران وفاقی وزیر ڈاکٹر انصار برنی نے ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطالبے پر اپنے ردعمل کے اظہار میں کہا کہ عسکریت پسندوں کو عام معافی دینا قطعی انصاف نہ ہو گا اگر ایسا کرنا ہے تو جیلوں میں موجود قیدیوں کا کیا قصورہے انہیں بھی رہا کر دیا جانا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ عسکریت پسند تو نجی جیلیں بنا کر عام شہریوں کو قید میں ڈالنے جیسے اقدامات میں ملوث ہیں اور انسانی حقوق کی سخت خلاف ورزیوں کے مرتکب ہو رہے ہیں۔

فاٹا کے سابق سیکیورٹی چیف بریگیڈیر ریٹائرڈ محمود شاہ نے بھی ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطالبے پر تنقید کی اور کہا کہ عسکریت پسندوں کے ساتھ مصالحت کی باتیں کرنا محض بھولپن ہے ۔ اور جو لوگ انہیں معاف کر دینے کی بات کرتے ہیں و ہ بچیوں کے سکول جلائے جانے سے لے کر عام شہریوں کی زندگیوں کو وبال بنانے کے ذمے داروں کی کارروائیوں کو نظرانداز کر رہے ہیں۔