پاکستان اور سری لنکا کے مابین ریفرل سسٹم کیوں استعمال نہیں کیا جارہا؟رمیزراجہ

پیر 2 مارچ 2009 14:12

لاہور(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔2مارچ ۔2009ء) قومی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان اور عصرحاضر کے نامور کمنٹیٹررمیزراجہ کا کہنا ہے کہ آئی سی سی جنوبی افریقہ بمقابلہ آسٹریلیا اور ویسٹ انڈیز اور انگلینڈ کے درمیان ٹیسٹ میچز میں ریفرل سسٹم استعمال کررہی ہے لیکن پاکستان اور سری لنکاکے درمیان جاری ٹیسٹ سیریز میں اس جدید سسٹم سے کیوں استفادہ نہیں کیا جارہا ہے۔

قذافی سٹیڈیم میں خصوصی گفتگو کرتے ہوئے سابق کپتان نے کہاکہ جب اس بات کا یقین ہوچکا ہے کہ ریفرل سسٹم کرکٹ کی ضرورت ہے تو اسے تمام جگہ استعمال کیا جانا چاہیے لیکن میرے لیے یہ بات حیران کن ہے کہ کرکٹ کی گورننگ باڈی پاکستانی سرزمین پر یہ سسٹم کیوں استعمال نہیں کررہی ہے ،حالانکہ کراچی ٹیسٹ کے بعد لاہور میں بھی کئی یقینی آؤٹ نہیں دئیے گئے اور بعض مرتبہ امپائرز سے بھی غلط فیصلے ہوئے ایسے میں یہ بات مضحکہ خیز ہے کہ ریفرل سسٹم کو آسٹریلیا اور انگلینڈکی ٹیموں تک محدود رکھا جارہا ہے۔

(جاری ہے)

لاہور ٹیسٹ میں قومی ٹیم کے بولنگ اٹیک کے حوالے سے رمیز راجہ کا کہنا تھا کہ ٹیم مینجمنٹ نے کراچی اور لاہور دونوں میچز میں ناتجربہ کار باؤلرز پر انحصار کیا جس کی وجہ سے حریف بیٹسمینوں نے لمبی اننگزکھیلی ہیں۔ سہیل خان اور طلحہ کی جگہ راؤافتخار انجم ،عبدالرؤف اور سہیل تنویر کو شامل کیے جانے سے میزبان ٹیم کی بولنگ مضبوط ہوتی ۔انہوں نے کہاکہ سہیل خان اور محمد طلحہ ڈومیسٹک کرکٹ کا محدو د تجربہ رکھتے ہیں انہیں قبل ازوقت ٹیسٹ کیپ دی گئی ہے۔

شائقین کے حوالے سے رمیزراجہ نے کہاکہ کرکٹ بورڈ کو چاہیے کہ شائقین کو سٹیڈیم میں کھانے پینے کی سستی اشیاء کی فراہمی کے انتظامات کرے تاکہ لوگ گراؤنڈ آنے کو ترجیح دیں ،شائقین کو سٹیڈیم لانے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ انہیں سہولیات فراہم کی جائیں ۔رمیز راجہ نے کرکٹ بورڈ کو تجویز دیتے ہوئے کہاکہ جن عظیم کھلاڑیوں کے نام انکلوژر بنے ہوئے ہیں انہیں سٹیڈیم بلایا جائے اس سے نہ صرف سابق کھلاڑیوں کو بے پناہ خوشی ہوگی بلکہ شائقین کوبھی احساس ہوگا کہ انہیں اہمیت دی جارہی ہے ۔

ایک سوال کے جواب میں رمیز راجہ نے کہاکہ ایشیا ء کپ کے بعد سری لنکن ٹیم کے دورہ پاکستان سے ثابت ہوگیا ہے کہ پاکستان کھیلوں کیلئے محفوظ ملک ہے ۔رمیزراجہ نے کہاکہ پاکستان کے خلاف محض افواہیں پھیلی ہوئی ہیں کہ یہاں غیرملکیوں کو خطرہ ہے۔ٹیسٹ سیریز کیلئے کوریج کیلئے ٹین سپورٹس سے تعلق رکھنے والے 60سے زائد غیرملکی پاکستان آئے ہوئے ہیں ، سری لنکن ٹیم کا کوچنگ سٹاف بھی غیرملکی ہے جبکہ میچ ریفری کرس براڈ انگلینڈ سے اور دونوں امپائرزآسٹریلیاسے تعلق رکھتے ہیں جنہیں یہاں کوئی خطرہ نہیں ہے اور وہ اپنی مرضی سے گھوم پھررہے ہیں جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ پاکستان کھیل کیلئے محفوظ مقام ہے۔

انہوں نے کہاکہ میں پہلے بھی یہ تجویز دے چکا ہوں کہ کرکٹ بورڈ کو چاہیے کہ ورلڈالیون کو یہاں کھیلنے کی دعوت دے جس میں سٹیووا ،برائن لارا اور رکی پونٹنگ جیسے بڑے کھلاڑی موجود ہوں تاکہ وہ یہاں آکر کھیلیں اور انہیں احساس ہوکہ پاکستان ایک محفوظ مقام ہے ۔رمیز کا کہنا تھا کہ پاکستان بین الاقومی کرکٹ میچز کے دوبارہ انعقادکیلئے آئی پی ایل طرز پر پاکستان پرئمیر لیگ کلیدی کردار ادا کرسکتی ہے،پی پی ایل میں غیرملکی کھلاڑیوں کو شرکت کی دعوت دی جائے اور انہیں بھاری رقم دی جائے ۔

بھاری پیسے کے عوض جس کھلاڑی کو دعوت دی جائیگی وہ ہرصورت پاکستان آئے گا۔انہوں نے کہاکہ یہ ضروری نہیں ہے کہ آئی پی ایل کی طرح طویل ٹورنامنٹ منعقد کیا جائے اگر پی سی بی پیسہ خرچ کرکے دوہفتوں پر مشتمل بھی ٹورنامنٹ کرانے میں کامیاب ہوجاتا ہے تواس سے پاکستان میں بین الاقومی کرکٹ لوٹ آئے گی۔ایک سوال کے جواب میں رمیز راجہ کا کہنا تھا کہ پی سی بی کی موجودہ انتظامیہ کو وقت دیا جائے اور ان کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے ۔

انہوں نے کہاکہ یہ بات درست نہیں کہ کرکٹرز ایڈمسٹریشن نہیں کرسکتے ،پی سی بی میں آنے والوں کو ایڈمسٹریشن نہیں کرنا ہوتی بلکہ کرکٹ کا نظام چلانا ہوتا ہے جو ایک کرکٹرہی چلاسکتا ہے ،پی سی بی کو چاہیے کہ سابق تجربہ کار کھلاڑیوں پرمشتمل کرکٹنگ کمیٹی بنائی جائے جس کی مشاورت سے فیصلے کیے جائیں تاکہ ملکی کرکٹ دوبارہ ترقی کرسکے۔