ملک میں جوکچھ بھی ہو رہا ہے بھوک کی وجہ سے ہو رہا ہے اور اگر زرعی شعبہ پر توجہ نہ دی گئی تو ملک کے حالات نہایت تباہ کن ہو سکتے ہیں،جہ دی جائے تو صرف فشریز کا شعبہ ملک کی جی ڈی پی میں 1 فیصد اضافہ کر سکتا ہے،زراعت کے شعبہ کاکل ترقیاتی بجٹ صرف (پی ایس ڈی پی)75 کروڑ روپے ہے،صورتحال نہایت بھیانک ہے،سیکریٹری قومی تحفظ خوراک و تحقیق سیرت اصغر ملک میں زرعی شعبہ کی زبو حالی پر پھٹ پڑئے

بدھ 15 اکتوبر 2014 18:41

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔15اکتوبر 2014ء ) قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے قومی تحفظ خوراک و تحقیق نے د ی سیڈ ( ترمیمی) بل2014 ء کے ترمیم شدہ مسودہ کی متفقہ طور پر منظوری دیتے ہوئے ملک میں ناقص و غیر معیاری بیج فراہم کرنیوالوں پر 2 لاکھ سے 6 لاکھ روپے تک جرمانہ عائد کرنے کی منظوری دے دی۔ سیکرٹری قومی تحفظ خوراک و تحقیق سیرت اصغر ملک میں زرعی شعبہ کی زبو حالی پر پھٹ پڑئے، انہوں نے کہا کہ فی الوقت زراعت کے شعبہ کاکل ترقیاتی بجٹ صرف (پی ایس ڈی پی)75 کروڑ روپے ہے،صورتحال نہایت بھیانک ہے، دنیا بھر میں سارے انقلاب روٹی باعث آتے ہیں ۔

اس وقت ملک میں جوکچھ بھی ہو رہا ہے بھوک کی وجہ سے ہو رہا ہے اور اگر زرعی شعبہ پر توجہ نہ دی گئی تو ملک کے حالات نہایت تباہ کن ہو سکتے ہیں،وہ دھرتی کے بیٹے ہیں اور ان کا دل زراعت کے لئے روتا ہے، اگر توجہ دی جائے تو صرف فشریز کا شعبہ ملک کی جی ڈی پی میں 1 فیصد اضافہ کر سکتا ہے، ملک بھر میں صرف 32ٹن ٹراؤٹ مچھلی پیدا ہو رہی ہے ، آئندہ برس تک ملک میں ٹراؤٹ مچھلی کی پیداوار کو320 ٹن تک بڑھایا جائے گا،ملک میں زرعی شعبہ کے بجٹ کو گذشتہ کئی برس سے 2 فیصد پر ہی رکھا گیا ہے جس کے باعث ملک میں زراعت کے پوٹینشل کو ضائع کیا جا رہا ہے، اس موقع پر وفاقی وزیر سکندر بوسن کا کہنا تھا کہ پاکستان اس وقت دنیا کا آم برآمد کرنے والا چوتھا بڑا ملک بن چکا ہے، پاکستان میں جانوروں کے حلال گوشت کی برآمد پر کو ئی پابندی نہیں ہے،دنیا بھر میں پاکستانی حلال گوشت کی بہت مانگ ہے، تاہم کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی نے جانوروں کی دوسرے ممالک کو برآمد پر پابندی عائد کر رکھی ہے، یہ پابندی صرف ای سی سی ہی ختم کر سکتی ہے، ملک میں گندم کی صورتحال اطمینان بخش ہے ،حکومت کے پاس اضافی گندم کے وافر ذخائر موجود ہیں، مستقبل قریب میں گندم کی کمی کا کوئی امکان نہیں ہے، آٹا نہ صرف معیاری ہے بلکہ اس کے نرخ بھی گذشتہ برس کی نسبت کم ہیں۔

(جاری ہے)

بدھ کے روز قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے قومی تحفظ خوراک و تحقیق کا اجلاس چیئر مین کمیٹی ملک شاکر بشیر اعوان منعقد ہوا جس میں اراکین کمیٹی نے دی سیڈ ( ترمیمی) بل2014 ء کے ترمیم شدہ مسودہ کی منظوری دے دی ہے۔بل کے ترمیمی مسودئے پر غور کرتے ہوئے اراکین کمیٹی نے اس بات پر زور دیا کہ ملک میں ناقص اور غیر معیاری بیج فراہم کرنے والے افراد، کمپنیوں اور اداروں کے خلاف بھاری جرمانے اور سزائیں عائد کی جانی چاہیں۔

تاہم اس پر وزارت قومی تحفظ خوراک و تحقیق کے اعلی حکام نے اس کی مخالفت کرتے ہوئے اصرار کیا کہ اس سے کرپشن کو فروغ ملے گا۔ کمیٹی نے اراکین کی جانب سے دلائل پیش کئے جانے پر اس بات کی منظوری دے دی کہ ملک میں ناقص اور غیر معیاری بیج فراہم کرنے والے افراد، کمپنیوں اور اداروں کے خلاف جرم ثابت ہونے پر 2 لاکھ سے 6 لاکھ روپے تک جرمانہ عائد کیا جا سکے گا ۔

بل کے مسودے میں نجی شعبہ کو بیجوں کو جانچنے والی لیباریٹریاں جو کہ متعلقہ تنظیم کی جانب سے مجاز شدہ ہوں کے قیام کی بھی اجازت دی گئی ہے جبکہ نجی شعبہ کوبیجوں کی تعداد بڑھانے اور ان کی سرٹیفیکیشن کے لئے بنیادی بیجوں کی پیداوار کی بھی اجازت فراہم کی گئی ہے۔ اجلاس کے دوران وفاقی وزیر برائے قومی تحفظ خوراک و تحقیق سکندر حیات بوسن کنے کمیٹی کے اراکین کو بتایا کہ ملک میں گندم کی صورتحال اطمینان بخش ہے اور مستقبل قریب میں گندم کی کمی کا کوئی امکان نہیں ہے، حکومت کے پاس اضافی گندم کے وافر ذخائر موجود ہیں جن میں سے ابھی تک اضافی گندم جاری نہیں کی گئی جبکہ گزشتہ برس اگست کے مہینہ میں ہی اضافی گندم جاری کر دی گئی تھی۔

مارکیٹ میں گندم کی تسلی بخش مقدار موجود ہے جس کے باعث مارکیٹ میں موجود آٹا نہ صرف معیاری ہے بلکہ اس کے نرخ بھی گذشتہ برس کی نسبت کم ہیں۔انہوں نے کہا کہ حکومت تمام صورتحال کی نگرانی کر رہی ہے اور اس حوالے سے تمام صوبوں سے رابطہ میں ہے جونہی گندم کی کمی محسوس ہو گی اضافی گندم کا اجراء کر دیا جائے گا ۔صوبہ خیبر پختونخواہ نے 3 لاکھ ٹن گندم کے لئے ادائیگی کی ہے لہذا ان کو گندم فراہم کی جا رہی ہے، زراعت کے شعبہ کو نظرانداز کئے جانے کے باعث ملک میں بڑے کاشتکار تقریبا ختم ہو چکے ہیں اور فی الوقت تمام بڑے یا چھوٹے کاشتکار بری طرح پس رہے ہیں۔

رکن کمیٹی و قومی اسمبلی کیپٹن(ر) صفدرنے کمیٹی پر زور دیا کہ شوگر سیس ٹیکس کو بڑھایا جائے نا کہ ان شوگر ملوں کے قریبی شاہراؤں کی حالت بہتر کی جا سکے، پاکستان میں دنیا کا بہترین گرینائیڈ نکلتا ہے تاہم فی ٹرک 30 ٹن سے زائد وزن بار بردار کیا جا تا ہے جس کے باعث پہلے صوبائی اور بعد ازاں وفاقی شاہراؤں کی حالت مخدوش ہو رہی ہیاور سڑکیں تباہ ہو رہی ہیں۔

انہوں نے تجویز پیش کی کہ مال برداری کے لئے ایسی پالیسی بنائی جانی چاہئے کہ جس میں صرف 2 ایکسل ٹرک استعمال ہو سکیں۔ کیپٹن(ر) صفدر کا کہنا تھا کہ سندھ میں رواں برس عید الاالضحی کے موقع پر نرخ زیادہو ہونے، تباہ کن سیلابوں اور عوقام کی قوت خرید کم ہونے کے باعث بڑیی تعداد میں قربانی کے جانور قربان ہونے سے رہ گئے اگر ان کے مالکان سے ان جانوروں کو خرید کا ان کے نقصانات کا اذالہ کر لیا جائے تو وہ آئندہ برس کے لئے جانور تیار کر سکیں گے، انہوں نے اراکین کی توجہ ملک میں تمباکو کی صنعت پر مبذول کرواتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں دنیا کو بہترین تمباکو پیدا ہو تا ہیتاہم سابق حکومت نے تمباکو کی صنعت کو گیس کی فراہمی پر پابندی عائد کر دی تھی جس کے باعث تمباکو خشک کرنے والی بھٹیوں میں اربوں روپے لاگت کی جنگلات کی لکڑی ضائع کی جا رہی ہے۔

اگر حکومت یہ پابندی اٹھا لیاور چین کی مدد سے تمباکو خشک کرنے کے لئے چین کی مدد سے اوون نصب کر لے تو نہ صرف قیمتی جنگلات بچ جائیں گے بلکہ پاکستانی تمباکو کا معیار اور بہتر ہو جائے گا ۔اس پر جواب دیتے ہوئے وفاقی وزیر برائے قومی تحفظ خوراک و تحقیق سکندر حیات بوسن نے واضح کیا کہ پاکستان میں جانوروں کے حلال گوشت کی برآمد پر کو ئی پابندی نہیں ہے،دنیا بھر میں پاکستانی حلال گوشت کی بہت مانگ ہے، تاہم جانوروں کی دوسرے ممالک کو برآمد پر کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی نے پابندی عائد کر رکھی ہے، یہ پابندی اٹھا نا وزارت کے دائرہ کار سے باہر ہے صرف ای سی سی ہی اس پابندی کو ختم کر سکتی ہے تاہم انہوں نے واضح کیا کہ سندھ میں قربانی کے موقع پر قربانی سے رہ جانے والے جانوروں کے گوشت کو دیگر ممالک کو برآمد کیا جا سکتا ہے۔

اس موقع پر سیکریٹری وزارت قومی تحفظ خوراک و تحقیق سیرت اصغر نے کمیٹی کو مطلع کیا کہ پاکستان میں بین الاقوامی معیار کے صرف 32 سلاٹر ہاؤس (ذبح خانے) موجود ہیں۔ سیرت اصغر کا کہنا تھا کہ ملک بھر میں فروخت سے قبل ادرک کو مختلف کیمیائی محلولوں اور تیزاب میں ڈبو کر ان کے وزن میں مصنوعی اضافہ کیا جا تا ہے جس سے ان کا معیار خراب ہو جا تا ہے ، قبل ازیں پیور فوڈایکٹ اس طرح کے مسائل سے نمٹنے کے لئے موجود تھا تاہم اب یہ وفاقی کے دائرہ عمل سے باہر ہیں۔

تمام صوبے معیار خوراک اور حفظان صحت کو جانچنے اور بہتر بنانے کے لئے صوبائی فوڈ سیکیورٹی اتھارٹیاں قائم کرنے کے لئے قانون سازی کر رہے ہیں اور پنجاب اور بلوچستان میں صوبائی فوڈ سیکیورٹی اتھارٹیاں عملی طور پر کام کر رہی ہیں۔ کمیٹی کے اجلاس کے دوران سیرت اصغر وزار ت قومی تحفظ خوراک و تحقیق کی زبوحالی پر پھٹ پڑیان کا کہنا تھا کہ متعلقہ وزارت کو ناکافی فنڈ و وسائل فراہم کئے جا رہے ہیں۔

فی الوقت وزارت کا کل ترقیاتی بجٹ (پی ایس ڈی پی)75 کروڑ روپے ہے،صورتحال نہایت بھیانک ہے، دنیا بھر میں سارے انقلاب روٹی باعث آتے ہیں ۔ اس وقت ملک میں جوکچھ بھی ہو رہا ہے بھوک کی وجہ سے ہو رہا ہے اور اگر زرعی شعبہ پر توجہ نہ دی گئی تو ملک کے حالات نہایت تباہ کن ہو سکتے ہیں،انہوں نے واضح کیا کہ وہ دھرتی کے بیٹے ہیں اور ان کا دل زراعت کے لئے روتا ہے۔

سیکریٹری قومی تحفظ خوراک و تحقیق کا کہناتھا کہ اگر توجہ دی جائے تو صرف فشریز کا شعبہ ملک کی جی ڈی پی میں 1 فیصد اضافہ کر سکتا ہے، آئندہ ماہوفاقی دارلحکومت میں پی اے آر سی میں ایک مچھلی بانی کا فارم قائم کیا جا رہا ہے جس سے دارلحکومت میں مچھلی فراہم کی جا سکے گی،ملک بھر میں صرف 32ٹن ٹراؤٹ مچھلی پیدا ہو رہی ہے جبکہ گلگت بلتستان میں 30تازہ اور ٹھنڈے پانی کی بڑی جھیلیں موجود ہیں، کوشیش ہے کہآئندہ برس تک ملک میں ٹراؤٹ مچھلی کی پیداوار کو320 ٹن تک بڑھایا جائے گا، اگر ہمت کی جائے اور وسائل فراہم ہوں تو ٹراؤٹ مچھلی کی پیداوار کو 32 لاکھ ٹن تک لے جا سکتے ہیں۔

ملک میں زرعی شعبہ کے بجٹ کو گذشتہ کئی برس سے 2 فیصد پر ہی رکھا گیا ہے جس کے باعث ملک میں زراعت کے پوٹینشل کو ضائع کیا جا رہا ہے۔ ایک اور سوال کے جواب میں وفاقی وزیر قومی تحفظ خوراک و تحقیق نے شرکاء کو بتایا کہ پاکستان اس وقت دنیا کا آم برآمد کرنے والا چوتھا بڑا ملک بن چکا ہے یورپی یونین میں پاکستانی آم کی قیمت اور معیار میں اضافہ ہوا ہے، گذشتہ برس 60 ہزار ٹن آم اور رواں برس 90 ہزار ٹن سے زائد آموں کی یورپی یونین اور دیگر دنیا میں برآمد کی گئی ہے ۔ گذشتہ برس پاکستانی آموں کی 236 تاہم رواں برس صرف 2 کنسائنمنٹس رد کی گئی ہیں ۔ اب پاکستان آسڑیلیا اور جاپان کو بھی آم برآمد کر رہا ہے جو کہ خود آموں کے بڑے برآمد کنندگان میں شامل ہیں ۔

متعلقہ عنوان :