یہ کہنا تاریخ کو سراسر مسخ کرنے کی کوشش کے مترادف ہے کہ حیدرآباد میں67 سالوں تک کسی سرکاری یونیورسٹی کا قیام عمل میں نہیں آیا۔ پیر مظہرالحق

جمعہ 28 نومبر 2014 22:26

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔28نومبر 2014ء) پیپلز پارٹی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے رکن، سابقہ سینئر صوبائی وزیر تعلیم سندھ پیر مظہرالحق نے کہا ہے کہ حیدرآباد میں سرکاری یونیورسٹی قائم کرنے والے اشو کو بلاوجہ کچھ سیاسی عناصر سیاسی تنازع میں تبدیل کر رہے ہیں جبکہ حیدرآباد میرے جنم کا شہر ہے۔ آج یہاں جاری کردہ بیان میں انہوں نے مزید کہا کہ تاریخ گواہ ہے کے حیدرآباد سندھ کا دارلحکومت رہا ہے اور اس شہر پر کسی ایک سیاسی پارٹیی کی اجارہ داری نہیں ہے، البتہ کوئی بھی ایک سیاسی جماعت الیکشن جیتنے کے لبعد اس شہر کو اپنی ملکیت نہ تصور کرے ۔

سیاست میں چڑہاؤ اور اتراؤ آتا رہتا ہے ماضی میں حیدرآباد کی ایم این اے اور ایم پی اے کی سیٹیں پیپلز پارٹی کے علاوہ جماعت اسلامی اور جمعیت علما پاکستان نے بھی جیت تی رہیں اور وہ بھی وقت تھاجب حیدرآباد پر اپنی اجارہ داری کا دعوہ کرنے والی جماعت کا وجود بھی نہیں تھا۔

(جاری ہے)

انہوں نے سندھ میں سرکاری یونیورسٹی کا پس منظر بتاتے ہوئے کہا کہ1947 ماہ اپریل میں پاکستان بننے سے پہلے میرے دادا سابقہ وزیر اعلی پیر الاہی بخش نے وزیر تعلیم کی حیثیت سے سندھ کی پہلی یونیورسٹی یعنی سندھ یونیورسٹی کے کراچی میں قیام کا بل منظور کرواکر اس جامع کا پہلا وائیس چانسلر ایک اردو بولنے والے پروفیسر اے بی حلیم کو مقرر کیا جو اس سے پہلے علیگڑہ یونیورسٹی میں بھی پروفیسر کے طور پرپیشہ ورانہ فرائض سرانجام دے رہے تھے اس وقت یہ بھائی لوگ پاکستان میں تشریف بھی نہیں لائے تھے۔

پیر مظہرالحق نے کہا کہ سندھ یونیورسٹی کراچی میں اس وقت تک رہی جب کراچی پاکستان کا دارلاحکومت بنا، سندھ یونیورسٹی تب تک یہاں قائم رہی بعد میں یہ حیدرآباد شہر میں اس وقت منتقل ہوئی جب وفاق نے کراچی کو پاکستان کا دارلحکومت بنایا اور علیحدہ یونیورسٹی کراچی کے نام سے قیام عمل میں لایا گیا اس کے بعد تقریبن دو دہائی تک سندھ یونیورسٹی مکمل طور پر حیدرآباد میں قائم رہی جہاں اولڈ کیمپس اور میٹھا رام ہاسٹل میں کلاس چلتے تھے جس میں میں نے بھی تعلیم حاصل کی تھی جو1970 تک وہاں تھے اور اس وقت بھی وہاں فیکلٹی تعلیم اور فیکلٹی قانون کام کر رہی ہیں اس لیے یہ کہنا تاریخ کو سراسر مسخ کرنے کی کوشش کے مترادف ہے ہے کہ حیدرآباد میں67 سالوں تک کسی سرکاری یونیورسٹی کا بھی قیام عمل میں نہیں آیا۔

پیر مظہرالحق نے کہا کے پاکستان بننے کے بعد واحد صوبہ سندھ تھا جس کے رہنے والوں نے ہندستان سے آئے ہوئے مسلمان بھائیوں کو سینے سے لگا کر خدمت کی اور اس کا زندہ ثبوت پی آئی بی کالونی کراچی بھی شامل ہے۔انہوں نے یہ بھی وضاحت کی کے سندھ کے لوگ صوفیاکرام کی تعلیم پر عمل کرتے ہوئے انسان کو انسان کے طور پر دیکھتے ہیں نا کے ان کے رنگ ، مذہب، زبان کو دیکھتے ہیں۔

سندھ کے لوگوں کی وصعت قلبی اس سے صاف ظاہر ہے کے ان کے خون پسینے سے بنے ہوئے ان بڑے شہروں میں آج ہندوستان سے آئے ہوئے مسلمان بھائیوں کی اکثریت آباد ہے اور شہری سہولتیں ان کو حاصل ہیں جبکہ سندھ کہ پرانے باسیوں کو آج بھی دیہاتی علاقوں ان سہولتوں کا عشر حاصل بھی نہیں ہے ۔ پاکستان پیپلز پارٹی وہ واحد جماعت ہے جس میں ہر مذہب، رنگ، زبان سے تعلق رکھنے والے لوگ بڑے بڑے عہدوں پر فائز رہی ہیں جن میں پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے گورنر وفاقی وزرا صوبائی وزرا اور مشیروں کی بہت بڑی تعداد کے نام بتائے جا سکتے ہیں ۔

انہوں نے مزید کہا کہ پیپلزپارٹی کے وزرا کو بار بار متعصب ہونے کا طعنہ دینے والے فرماتے ہیں کے سندھ کا کوئی چیف منسٹر اردو بولنے والا نہیں بنا جبکہ چیف منسٹر زبان کی بنیاد پر نہیں بلکہ عوام کے ووٹوں پر منتخب ہوتا ہے۔ ہمارے بھائی لوگ یہ بھی بھول جاتے ہیں کے آج بھی سندھ کے گورنر ڈاکٹر عشرت العباد کو پیپلز پارٹی والے بھی اپنا گورنر سمجھتے ہیں اور کبھی بھی یہ نہیں کہا کہ سندھ کے اس بڑے عہدے پر سب سے زیادہ عرصہ فائز رہنے والے گورنر اردو بولنے والے ہیں ان کو ہم سب عزت اور احترام کی نظر سے دیکھتے ہیں اور ان کی ہر جگہ تعریف کرتے ہیں جبکہ پیپلز پارٹی مسلسل اکثریت میں ہونے کے باوجود باربار ایم کیو ایم کو سندھ کابینا میں اورجب وفاقی حکومت اس کی تھی تو وفاقی وزرا کے طور پر شامل کیا جب وہ چھوڑ جاتے ہیں تو پھر انہیں منانے جاتے ہیں اس افہاو و تفہیم کی پالیسی کو کمزوری نہیں سمجھا جائے۔

پیر مظہرالحق نے کہا کہ حیدرآباد پریس کلب کے باہر ان کے خلاف جو مظاہرہ کیا گیا وہ سراسر ٹوپی ڈرامہ تھا اور کسی کے اشارے پر کرایا گیا تھا جبکہ یہ معاملہ سندھ اسمبلی کے فلورپر اعتراض کرنے والی جماعت اور میرے درمیان خوش اسلوبی سے طئہ پا چکا تھا۔