انتخابات میں ریاستی اداروں کو کس طرح اور کس نے استعمال کیا قوم ان شخصیات سے بخوبی واقف ہے،علی اکبر گجر

بدھ 10 دسمبر 2014 17:54

کراچی (اُردو پوائنٹ تاز ترین اخبار۔ 10 دسمبر 2014ء) ماضی کے نام نہاد ریفرنڈم ، مشکوک بلدیاتی اور قومی انتخابات میں ریاستی اداروں کو کس طرح اور کس نے استعمال کیا قوم ان شخصیات سے بخوبی واقف ہے․ صاف اور شفاف انتخابات کے نتیجے میں بننے والی حکو متوں کو غیر قانونی کہنے والوں کا اپنا دور حکومت غیر آئینی اورغیر قانونی تھا․ پاکستان مسلم لیگ(ن) سندھ کے سینئر رہنما علی اکبر گجر نے کہا ہے کہ 2013 کے انتخابات کے نتیجے میں بننے والی آئینی حکومتوں کو غیر قانونی کہنے والے آمر کا بیان قابل مذمت اور کروڑوں پاکستانیوں کے ووٹ کی توہین ہے․ انتخابات آئین کے متعین دائرہ کار میں منعقد کروائے گئے اور ملک کی تمام جمہوری قوتوں نے ان انتخابات میں بھرپور شرکت کی تھی جس کے نتیجے میں پاکستان مسلم لیگ(ن)، پیپلز پارٹی، تحریک انصاف، نیشنل پارٹی اور پختونخوا ملی عوامی پارٹی پنجاب، سندھ، خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں حکومت میں آئیں․ سابق آمر کی جماعت نے بھی 2013 کے انتخابات میں حصہ لیا اور ان کی جماعت کا ایک آدھ رکن بھی منتخب ہوا تھا․ مرکز اور پاکستان کے چاروں صوبوں میں عوام کی منتخب آئینی اور قانونی حکومتیں قائم ہیں جنہیں آئین شکن آمر غیر قانونی قرار دینے کی کوششوں میں مصروف ہے․ پاکستان مسلم لیگ(ن) سندھ کے سینئر رہنما علی اکبر گجر نے سابق ڈکٹیٹر پرویز مشرف کے بیان کو کروڑوں پاکستانیوں کی توہین اور ووٹ کے تقدس کی پامالی قرار دیتے ہوئے کہا کہ جوں جوں آئین شکنی کے خلاف مقدمات کا شکنجہ سابق آمر کی طرف بڑھ رہا ہے وہ ملک میں ابتری کے حالات پیدا کر کے قانون سے فرار کا راستہ تلاش کر نے میں مصروف ہوگئے ہیں․2013 کے انتخابات کسی فرد واحد نے نہیں کروائے بلکہ ملک کے مقتدر اور ذمہ دار الیکشن کمیشن کی زیر نگرانی منعقد کروائے گئے تھے جس کی تشکیل میں پاکستان کی تمام جمہوری قوتوں کا بھرپور عمل دخل تھا․ طاہر القادری اور عمران خان کو نام نہاد اتحاد میں شرکت کی دعوت سے آمر اور اس کے حواریوں کا پس پردہ گٹھ جوڑ بے نقاب ہو گیا ہے․ قوم دھرنوں اور جلسوں کی سیاست سے جلاؤ گھیراؤ کی سیاست کی طرف آنے والوں کے اصل چہرے دیکھ رہی ہے اس لئے اب عوام کی منتخب حکومت کے خلاف نہ کوئی اتحاد بن سکتا ہے نہ کامیاب ہوسکتا ہے․ علی اکبر گجر نے کہا کہ ڈکٹیٹر مشرف کے دور میں منعقد کروائے گئے ریفرنڈم، بلدیاتی اور قومی انتخابات کی حقیقت سے ہر پاکستانی اچھی طرح واقف ہے جب تمام ریاستی اداروں کو جبرا آمر کی بی ٹیم تیار کرنے پر مامور کیا گیا اور ملک کے تمام حکومتی اداروں کو قومی ذمہ داریاں ادا کرنے سے ہٹا کر من پسند امیدواروں کی کامیابی کی ذمہ داریوں پر لگایا گیا․ انتخابات میں دھاندلی ہوتی تو پرویز مشرف کی جماعت کا امیدوار رکن پارلیمنٹ بنتا اور نہ ہی سندھ ، بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں مختلف سیاسی جماعتیں کا میاب ہوتیں․ ملک کے تین صوبوں میں مختلف جماعتوں کا اقتدار میں آنا ہی اس بات کا سب بڑا ثبوت ہے کہ2013 کے انتخابات نہ صرف شفا بلکہ منصفانہ بھی تھے․ انفرادی اور مخصوص علاقوں میں انتخابی بے قاعدگیوں کی شکایات تو امریکہ جیسے ملک کے صدارتی انتخابات میں بھی سامنے آتی رہتی ہیں لیکن وہاں ّج تک کبھی کسی حکومت کو غیر قانونی نہیں کہا گیا․ پاکستان عوامی تحریک کا احتجاج منطقی انجام کو پہنچ چکا جبکہ تحریک انصاف بڑی تیزی سے اپنے ہی غیر سیاسی اقدامات کی وجہ سے اپنے انجام کی طرف بڑھ رہی ہے اس لئے سابق ڈکٹیٹر کو اقتدار میں دوبارہ واپسی کی خواہش کو دل سے نکال دینا چاہئے ․ پاکستان کی موجودہ پارلیمنٹ 2018 تک اپنی آئینی ذمہ داریاں ادا کرتی رہے گی اور اس کے بعد بھی قوم کا انتخاب ترقی اور خوشحالی کی ضمانت پاکستان مسلم لیگ(ن) ہی ہوگی․