حکومتی اراکین کی وزیر اعلیٰ کی زیر صدارت اجلاس میں شرکت کے باعث پنجاب اسمبلی کا اجلاس 3گھنٹے 35کی تاخیر سے شروع ہوا،

ایوان میں اراکین کی تعداد کم ہونے کی وجہ سے گنے کے کاشتکاروں کی شکایات ،خوراک اور زراعت سے متعلق مسائل پر عام بحث نہ ہو سکی، ایڈووکیٹ،ایڈیشنل ایڈووکیٹ اور اسسٹنٹ ایڈوکیٹ جنرلز مقدمات میں تاخیر کی وجہ نہیں،اہل افراد کو ان عہدوں پر تعینات کیا جاتا ہے ، زکوة فنڈز اضلاع کو آبادی کی بنیاد پر جاری کئے جاتے ہیں،1998ء کی مردم شماری کی بناء پر آبادی کے لحاظ سے فنڈز کا اجراء کیا جاتا ہے‘ وقفہ سوالات

جمعہ 27 فروری 2015 22:31

لاہور (اردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار. 27 فروی 2015ء ) حکومتی اراکین کی 90شاہراہ پر وزیر اعلیٰ شہباز شریف کی زیر صدارت پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں شرکت کے باعث پنجاب اسمبلی کا اجلاس مقررہ وقت دو بجے کی بجائے 3گھنٹے 35کی تاخیر سے قائمقام اسپیکر سردار شیر علی گورچانی کی صدارت میں منعقد ہوا ،ایوان میں اراکین کی تعداد کم ہونے کی وجہ سے گنے کے کاشتکاروں کی شکایات ،خوراک اور زراعت سے متعلق مسائل پر عام بحث نہ ہو سکی ۔

جبکہ ایوان میں کہا گیا ہے کہ ایڈووکیٹ،ایڈیشنل ایڈووکیٹ اور اسسٹنٹ ایڈوکیٹ جنرلز مقدمات میں تاخیر کی وجہ نہیں ۔پنجاب اسمبلی کے اجلاس میں صوبائی وزیر ملک ندیم کامران نے محکمہ زکوة و عشر اور پارلیمانی سیکرٹری نذر محمد گوندل نے قانون و پارلیمانی امور سے سے متعلق سوالات کے جوابات دئیے ۔

(جاری ہے)

جماعت اسلامی کے رکن اسمبلی ڈاکٹر وسیم اختر نے ضمنی سوال میں کہا کہ ایڈووکیٹ جنرل ‘ ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل اور اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل کے عہدوں پر سیاسی تعیناتیاں کی جاتی ہیں ، کیا انکی کارکردگی جانچنے کا کوئی پیمانہ ہے ۔

ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ میں دیوانی مقدمات دس ‘ دس سال چلتے رہتے ہیں ۔ہمارا عدالتی نظام بروقت انصاف دینے سے قاصر ہے کیا اس میں تبدیلی کیلئے کوئی منصوبہ بندی کی گئی ہے ۔ جسکے جواب میں پارلیمانی سیکرٹری نے کہا کہ ایڈووکیٹ ‘ ایڈیشنل اور اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرلز مقدمات میں تاخیر کی وجہ نہیں ،ان عہدوں پر اہل افراد کی ہی تقرریاں کی جاتی ہیں ۔

ایڈووکیٹ جنرل کی پوسٹ آئینی ہے جسکی تقرری آئین کے آرٹیکل 140کے تحت کی جاتی ہے جسکے مطابق امیدوار کی اہلیت اور کوالیفکیشن وہی ہے جو ہائیکورٹ کے جج کے لئے مقرر ہے ۔ ایڈیشنل اور اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل کی تقرری محکمہ قانون کے مینول کے رول 1.18کے تحت کی جاتی ہے ۔ صوبائی وزیر ملک ندیم کامران نے ایوان کو بتایا کہ 40بڑے ہسپتالوں کو دیگر کی نسبت زیادہ زکوٰة فنڈز دئیے جاتے ہیں جسکا مقصد زیادہ سے زیادہ مستحق مریضوں کو صحت کی سہولیات کی فراہمی ہے ۔

دستاویز کے مطابق ایوان میں بتایا کہ مالی سال 2013-14ء کے دوران محکمہ کو وفاقی حکومت کی جانب سے 2ارب 16کروڑ23لاکھ68ہزار روپے موصول ہوئے جس میں 72کروڑ23لاکھ49ہزار شامل کر کے 2ارب 88کروڑ 47لاکھ17ہزار روپے کا بجٹ مرتب کیا گیا ۔ زکوة فنڈز اضلاع کو آبادی کی بنیاد پر جاری کئے جاتے ہیں،محکمہ اضلاع کی آبادی کا خود تعین نہیں کرتا بلکہ 1998ء کی مردم شماری کی بناء پر آبادی کے لحاظ سے فنڈز کا اجراء کیا جاتا ہے ۔

اجلاس کے دوران حکومتی رکن اسمبلی شیخ علاوٴالدین نے کہا کہ سند ھ اسمبلی کی نئی عمارت کا تعمیراتی کام پنجاب اسمبلی کی عمارت سے بعد میں شروع ہو ئی لیکن وہ بھی مکمل بھی ہو گئی ،پنجاب کی کیوں نہیں ہو سکتی؟ انہوں نے کہا کہ اسمبلی سیکرٹریٹ کے ساتھ ہی زمین موجود ہے جسے حاصل کر کے وہاں ایم پی ایز ہاسٹل تعمیر کر لیا جائے تو کوئی مضائقہ نہیں۔

جس پر اسپیکر نے انہیں پیر کے روز اپنے چیمبر میں طلب کر لیا۔پنجاب اسمبلی کے اجلاس میں ارکان کی حاضری کم ہونے کی وجہ سے سرکاری ایجنڈے پر بحث نہ ہوسکی اور صوبائی وزیر راجہ اشفاق سرور نے کہا کہ ایجنڈے پر گنے کے کاشتکاروں کی شکایات سمیت خوراک اور زراعت سے متعلق مسائل پر عام بحث رکھی گئی ہے لیکن ارکان کی تعداد کم ہیں اس لئے یہ بحث کسی اور دن رکھ لی جائے جس پر سپیکر نے بحث پیر کو کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے بعد ازاں اجلاس پیر کی سہ پہر دو بجے تک کیلئے ملتوی کر دیا گیا ۔