’جنسی استحصال ہوتا رہا مگر کوئی کارروائی نہ ہوئی‘
منگل 3 مارچ 2015 20:50
آکسفورڈ(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔3مارچ۔2015ء)برطانیہ کے شہر اکسفورڈ میں ایک جنسی سیکنڈل ک منظر عام پر آنے کے بعد نظر ثانی کے دوران انکشاف ہوا کہ شہر میں سرگرم جنسی گروہ نے 16 برس میں کم از کم 273 لڑکیوں کاجنسی استحصال کیا۔ اس گھناؤنے عمل میں ملوث گروہ کے سات مجرمان 2013 سے جیل میں سزا کاٹ رہے ہیں۔ ان پر 2004 سے لیکر 2012 تک چھ لڑکیوں کے ساتھ جنسی زیادتی کرنے کا الزام ثابت ہوگیا تھا۔
حالیہ تحقیقات اس کیس کے بعد نظر ثانی کے دوران سامنے آئیں ہیں۔ اس تحقیق کے نتائج کے مطابق ٹیمز ویلی اور اکسفورڈ کاؤنٹی کی پولیس نے اس کیس کی تفتیش کے دوران اگر کئی غلطیاں نہ کی ہوتیں تو یہ حقائق پہلے سامنے آجاتے۔ جنسی ہوس کا شکار بننے والی ایک متاثرہ لڑکی کا کہنا تھا کہ اس پورے معاملے کو بہت جلد بازی میں رفع دفع کردیا گیا۔(جاری ہے)
ایک پریس کانفرنس کے دوران آکسفورڈ کاؤنٹی میں بچوں کی حفاظت کے ادارے کی سربراہ میگی کلائتھ کا کہنا تھا کہ ’متاثرین کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ انتہائی تشویشناک تو ہے ہی اس سے بھی زیادہ وحشت ناک یہ امر ہے کہ بچے اتنے طویل عرصے تک جنسی زیادتی کا نشانہ بنتے رہے۔
‘اکسفورڈ کاؤٹنی کے بچوں کی حفاظت کے ادارے OSCB اکسفورڈ شائر سیف دی چلڈرن بورڈ کی رپورٹ میں کہا گیا کہ متعلقہ اہلکار وں نے متعدد غلطیاں کیں ور نہ یہ حقائق پہلے سامنے آ سکتے تھے۔ تاہم رپورٹ میں میں کہا گیا ہے کہ تفتیش کے دوران آمادہً غفلت برتنے کے شواہد نہیں ملے۔ اور نہ ہی ایسے کوئی ثبوت ہیں کہ جنسی استحصال کو نظر انداز کردیا گیا ہو۔ ادارے کی رپورٹ میں واضح طور پر ایسے تین واقعات کی نشاندہی کی گئی ہے جہاں اہلکاروں کو کارروائی کرنی چاہیے تھی مگر انھوں نے کوئی ایکشن نہیں لیا۔اولاً لڑکیوں کے بارے میں پہلے سے موجود تاثر اور مشکل رویوں کے باعث ان کے بیانات پر یقین نہیں کیا گیا۔ حکام یہ بھی نہیں سمجھ پائے کہ جنسی استحصال کرنے والوں کی کاروائیاں پر تشدد ہتھکنڈوں تک بڑھ گئی ہیں اور متاثرہ لڑکیاں مزاحمت کرنے کے قابل نہیں ہیں۔ اہلکار اس قسم کے کیسوں کو کسی منقطقی انجام تک پہنچانے کے بارے پر امید نہیں تھے کیونکہ اکثر ایسے کیسوں میں جو شواہد حاصل کیے جاتے ہیں، عدالت میں یا تو ان کی تردید کردی جاتی ہے یا بیانات واپس لے لیے جاتے ہیں۔ ایک لڑکی کا کہنا ہے کہ میری ماں نے حکام کو بتایا کہ میری بیٹی بڑی عمر کے مردوں کے ساتھ ہے، جو اسے مارتے پییٹتے ہیں اور ہیروئن کے انجیکشن لگاتے ہیں۔ مگر حکام نے کوئی کاروائی نہیں کی کیونکہ وہ ہمیں محض مسائل پیدا کرنے والی شوخ چنچل لڑکیاں سمجھتے تھے۔ متاثرہ لڑکی نے سوال پوچھا کہ کیا اہلکاروں کو یہ بھی سمجھ نہیں آتا تھا، ملز مان سوشل سروسز کے دفاتر میں آنے والی لڑکیوں کو ہی کیوں نشانہ بناتے تھے؟مزید بین الاقوامی خبریں
-
سات وکٹیں ،انڈونیشیا کی روہمالیا نے ویمن ٹی ٹوئنٹی میں تاریخ رقم کردی
-
عازمین سوشل میڈیا کے ذریعے رابطہ کرنے والی جعلی حج کمپنیوں کے فراڈ کا نشانہ بننے سے بچیں، سعودی وزارت حج
-
ٹک ٹاک کا امریکی صدرکے دستخط کردہ قانون کو چیلنج کرنے کا اعلان
-
فرانس کی طرف سے اسرائیلی آباد کاروں پرپابندیوں کی دھمکی
-
ٹرمپ نے امریکی تعلیم گاہوں میں جنگ مخالف ریلیوں کو بد ترین نفرت کا نام دے دیا
-
غزہ کو امداد کی ترسیل، عارضی بندرگاہ کی تعمیر شروع کر دی گئی ، پینٹاگان
-
ٹک ٹاک کی مالک کمپنی کا ایپ فروخت کرنے سے انکار
-
سڈنی، چاقوحملے میں جاں بحق پاکستانی گارڈ کی نمازجنازہ
-
مسجد نبوی ﷺمیں ایک ہفتہ کے دوران 60 لاکھ زائرین کی آمد
-
گزشتہ سال دنیا کے 28 کروڑ افراد شدید غذائی قلت کا شکار رہے، اقوام متحدہ
-
ملائیشیا کے سابق وزیر اعظم کو انسداد بدعنوانی کی تحقیقات کا سامنا
-
پاکستان کیساتھ مضبوط رشتہ ہے، امریکا نے اختلافات کی خبروں کو مسترد کردیا
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2024, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.