سابق پاکستانی سفیر حسین حقانی کا امریکی اخبار وال سٹریٹ جرنل میں اپنے مضمون میں ردعمل

پیر 20 اپریل 2015 19:20

سابق پاکستانی سفیر حسین حقانی کا امریکی اخبار وال سٹریٹ جرنل میں اپنے ..

واشنگٹن (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 20اپریل۔2015ء) امریکہ میں سابق پاکستانی سفیر حسین حقانی نے امریکہ کی جانب سے پاکستان کو دہشت گردی سے نمٹنے کیلئے ہیلی کاپٹروں اور میزائلوں سمیت ایک ارب ڈالر کے فوجی سازوسامان کی مجوزہ فراہمی کی شدید مخالفت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے خطے میں تصادم کو ہوا ملے گی، پاکستان جہادی چیلنج سے نمٹنے میں ناکام ہو گیا ہے، امریکہ کی جانب سے مجوزہ طور پر فراہم کردہ ہتھیار پاک افغان سرحد پر دہشتگردوں کے خلاف استعمال ہونے کی بجائے پاک ایران سرحدپر عسکریت پسندوں اور بھارت کے خلاف استعمال ہوگا، امریکہ پہلے اس بات کو یقینی بنائے کہ پاکستان ان ہتھیاروں کو ان مقاصد کیلئے استعمال کرے گاجن کے لئے یہ فراہم کیاگیا ۔

پیر کو امریکی اخبار وال سٹریٹ جرنل میں لکھے گئے اپنے ایک مضمون میں میمو سکینڈل کے مرکزی کردار حسین حقانی نے امریکہ کی جانب سے پاکستان کو ہیلی کاپٹر اور میزائلوں سمیت پاکستان کو ایک ارب ڈالر کے فوجی سازوسامان کی فروخت کے فیصلے پر اپنے رد عمل کا اظہار کیا اور اس دوران انہوں نے مجوزہ معاہدے کی مخالفت کرتے ہوئے حکومت پاکستان، فوج اور اوباما انتظامیہ کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ امریکہ کی جانب سے پاکستان کو ہتھیاروں یک فراہمی اسلامی شدت پسندوں کے خاتمے کے مقصد میں مدد ملنے کی بجائے جنوبی ایشیاء میں تنازعات اور تصادم کو ہوا ملے گی۔ حسین حقانی نے کہا کہ پاکستان اپنے ملک میں جہادیوں کے چیلنج سے نمٹنے میں ناکام ہو گیا ہے اور اس کی وجہ اسلحے یا ہتھیاروں نہیں بلکہ قوت فیصلہ کی عدم موجودگی ہے، یہاں تک کہ پاکستان نے اپنا عالمی نقطہ نظر تبدیل کرلیا ہے۔

سابق سفیر نے کہا کہ امریکی ہتھیار شدت پسندی کے خلاف کم اور دشمن ملک کے خلاف زیادہ استعمال ہوں گے، اور یہ ہتھیار ملک کے اندرونی دشمنوں کے خلاف استعمال ہو سکتے ہیں، بجائے اس کے کہ ان کو جہادیوں کے خلاف استعمال کیا جائے، بھارت کے ساتھ تیز مقابلہ پاکستان کی داخلی اور خارجہ پالیسی کا حصہ رہا ہے، امریکہ نے پہلے سے بھی بھارت کے مقابلے میں پاکستان کو برابر کرنے کیلئے اس کی بہت مدد کی۔

ایک بڑے پڑوسی کے مقابلے میں سیکیورٹی کا حصول ایک معقول مقصد ہے تاہم اس کے مقابلے میں مستقل بنیادوں پر برابری کی خواہش ممکن نہیں۔ انہوں نے کہا کہ امریکی حکام کو پاکستان پہلے اس بات پر قائل کرنا چاہیے کہ بھارت سے مخالفت بیجنگ کے حوالے سے ہو لیکن فرانس یا جرمنی کے حوالے سے نہ ہو۔ انہوں نے کہا کہ فوجی پیکج یک فراہمی کے بعد پتہ چلتا ہے کہ اوبامہ انتظامیہ بھی اپنے پیش روؤں کی سابقہ پالیسیوں کو برقرار رکھے ہوئے اور ان کے نتائج مختلف حاصل کرنا چاہتے ہیں ، یہ ایک پر اسرار بات ہے کہ امریکہ صدر کیوں اچانک فوج پر اعتماد کرنے لگے ہیں جبکہ اس نے اسامہ بن لادن کے خلاف ایبٹ آباد میں ہونے والے آپریشن میں بد اعتمادی کااظہار کیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کو اس وقت فوجی سازوسامان کی فراہمی کے بعد پاکستان اسے افغانستان کے ساتھ اپنی شمال مغربی سرحد پر دہشت گردوں کے خلاف استعمال کرنے کے بجائے اسے صوبہ بلوچستان، ایران کے ساتھ سرحد پر عسکریت پسندوں اور مقبوضہ کشمیر کی متنازعہ سرحد پر استعمال کرے گا بجائے اس کے کہ اسے جہادیوں کے خلاف استعمال کیا جائے، اگر اوباماہ انتظامیہ اس بات پر یقین رکھتی ہے کہ پاکستانی فوج نے اپنی ترجیحات تبدیل کر لی ہیں تو تب اسے پاکستان کو ہیلی کاپٹروں کی فراہمی پر غور کرنا چاہیے اور اس بات کی بھی تصدیق کرنی چاہیے کہ کیا وہ کہیں اچھے مقصد کیلئے استعمال کئے جا رہے ہیں یا اسے دوسری جگہ پر فروخت کیا جا رہا ہے۔

جوہری طاقت بننے کے بعد پاکستان کو نہ تو بھارت سے خوف ہونا چاہیے اور نہ ہی وہ اپنے پڑوسی روایتی ہتھیار رکھنے والے ملک کے مقابلے میں غیر محفوظ ہے، امریکہ کیلئے ایک ایسے ملک کو اتنے بڑے پیمانے پر ہتھیاروں کی فروخت حیران کن ہے کیونکہ 20 کروڑ آبادی رکھنے والے ملک کی آمدن صرف ایک ڈالر روزانہ ہے

متعلقہ عنوان :