اٹھارہویں ترمیم کے بعد زراعت پر توجہ دینا صوبائی حکومتوں کی ذمہ داری ہے ٗ سکندر حیات بوسن

بد قسمتی سے شعبہ زراعت کی صلاحیت سے مستفید نہیں ہوپا رہے ٗ صوبائی حکومتیں احساس کریں ٗ ملکی حالات تبھی بدلیں گے جب برائی کے خلاف نفرت پیدا ہوگی ٗ سیمینار سے خطاب

پیر 11 مئی 2015 20:40

ملتان (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 11 مئی۔2015ء) وفاقی وزیر نیشنل فوڈ سکیورٹی اینڈ ریسرچ سکندرحیات بوسن نے کہا ہے کہ اٹھارہویں ترمیم کے بعد زراعت پر توجہ دینا صوبائی حکومتوں کی ذمہ داری ہے ٗ بد قسمتی سے شعبہ زراعت کی صلاحیت سے مستفید نہیں ہوپا رہے ٗ صوبائی حکومتیں احساس کریں ٗ ملکی حالات تبھی بدلیں گے جب برائی کے خلاف نفرت پیدا ہوگی ۔

ایوان تجارت وصنعت ملتان میں یو ایس ایڈ ان ایبلنگ انوائرمنٹ پروجیکٹ ،ڈیپارٹمنٹ آف پلانٹ پروٹیکشن کے زیراہتمام منعقدہ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر نے کہاکہ ملکی معیشت میں شعبہ زراعت کو خصوصی اہمیت حاصل ہے جس سے 45 فیصد لیبر فورس اور 67 فیصد ان ڈائریکٹ لوگوں کا روزگار وابستہ ہے مگر بدقسمتی سے شعبہ زراعت کی جو صلاحیت ہے اس سے مستفید نہیں ہوپارہے۔

(جاری ہے)

موجودہ حکومت کی کوشش ہے کہ شعبہ زراعت پر توجہ دی جائے ۔شعبہ زراعت پر رقم کاخرچ نظر نہیں آتا۔صوبائی حکومتیں اس بات کااحساس کریں کہ شعبہ زراعت پر زیادہ سے زیادہ سرمایہ کاری کی جائے۔انہوں نے کہاکہ آم سے متعلق بات کرتے ہوئے ہم جذباتی ہوجاتے ہیں کہ پاکستانی آم جیسا آم دنیا میں نہیں مگر اس بات کا فائدہ تب ہے جب پوری دنیا اس بات کااعتراف کرے کہ پاکستانی آم جیسا کوئی آم نہیں۔

گزشتہ سال کچھ مسائل تھے اور آم کے کاشتکار اور برآمد کنندگان بھی کچھ تحفظات کاشکارتھے جس پر حکومت نے بروقت اقدامات اٹھائے اوران کے تحفظات کو دور کرنے کی کوشش کی۔سکندربوسن نے کہاکہ گزشتہ سے پیوستہ سال آم کی برآمد پر236شکایات سامنے آئی تھیں جبکہ گزشتہ سال صرف دو شکایات ملیں بھارتی آم پر پابندی کے بعد انڈین لابی نے بھرپور کوشش کی کہ پاکستانی آم پربھی پابندی عائد کروائی جائے مگر ان کی کوشش ناکام ہوگئی۔

انہوں نے کہاکہ گزشتہ سال ہاٹ واٹرٹریٹ منٹ نہ ہونے کے برابر تھی۔اس سال 29ہاٹ واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹ سہولیات کی فراہمی کیلئے دستیاب ہونگے۔اس کافائدہ عام کسان کوبھی پہنچنا چاہیے۔وفاقی وزیر نے کہا کہ رواں سال پاکستان سے کنو کی ریکارڈ ایکسپورٹ ہوئی جوکہ ساڑھے تین لاکھ ٹن سے بھی تجاوز کرگئی۔گزشتہ سال یہ ایکسپورٹ سوا دولاکھ ٹن کی سطح پر رہی تھی۔

المیہ یہ ہے کہ کنو کی ایکسپورٹ میں اضافے کے باوجود اس کا فائدہ عام کسان کو نہیں پہنچا۔انہوں نے کہاکہ رواں سال 3.8ملین ٹن ٹماٹر کی پیداوار ہوئی جس میں سے صرف پنجاب سے 3لاکھ ٹن ٹماٹر ایکسپورٹ کیاگیا مگر ٹماٹر کی اس ایکسپورٹ کا فائدہ بھی کسان تک منتقل نہیں ہوسکا۔اس امر سے بخوبی اندازہ لگایاجاسکتا ہے کہ ملک میں مڈل مین کتنا طاقتور ہے۔

ایکسپورٹرز اور مڈل مین کو یادرکھنا چاہیے کہ ہرسال چھکے نہیں لگتے جب تک وہ کسان کا ہاتھ نہیں پکڑیں گے اور ان کو سہولیات فراہم نہیں کریں گے ان کا کاروباربھی ترقی نہیں کرسکے گا۔سکندر بوسن نے کہاکہ اس وقت ملک میں 97فیصد چھوٹا کاشتکارہے ۔اصل چیلنج یہ ہے کہ تین فیصد کی بجائے 97فیصد کسانوں کو سہولیات فراہم کی جائیں ۔حکومت اور پرائیویٹ سیکٹر کی جانب سے کسان کو سہولیات فراہم کی جائیں گی تو وہ زندہ رہنے کے قابل ہوگا اور کاشتکاری جاری رکھ سکے گا۔

وزیراعلی پنجاب کی جانب سے فروٹ فلائی پر جو پروجیکٹ شروع کیاگیاہے یہ نہایت خوش آئند ہے جس میں چھوٹے کاشتکار کوبھی فوکس کیا جارہاہے۔ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے وفاقی وزیر نے کہاکہ سابق دور میں ٹیڈیپ کے ساتھ آم کے بعض باغبانوں اور ایکسپورٹرز نے جو کیا وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔اس پر دل خون کے آنسو روتا ہے ۔ہمارا المیہ ہے کہ ہم ہربات بھول جاتے ہیں اور ذاتی مفاد پر ملکی مفاد کو قربان کردیتے ہیں۔

ملکی حالات تبھی بدلیں گے جب برائی کے خلاف نفرت پیدا ہوگی ۔ایک سوال کے جو اب میں وفاقی وزیر نے کہاکہ اگست2015ء میں ملتان کے نئے انٹرنینشل ایئرپورٹ سے بہت سی غیرملکی ایئرلائنز اپنی ہوائی سر وس شروع کردیں گی جس کے بعد اس علاقے کی مصنوعات بڑی تعداد میں ڈائریکٹ باہر جاسکیں گی۔