کماد کی جدید اقسام کو فروغ دے کر پیداوار میں اضافہ کیاجاسکتاہے، ماہرین جامعہ زرعیہ

ہفتہ 6 جون 2015 15:08

فیصل آباد۔6جون (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 06 جون۔2015ء )پاکستان گزشتہ 15 سال میں گنے کی پیداوار میں صرف اعشاریہ پانچ فیصد اور شوگر ریکوری میں دو فیصد اضافہ کر سکا ہے لہٰذا کماد کی جدید اقسام کو فروغ دے کر پیداوار میں اضافہ کیاجاسکتاہے۔ جامعہ زرعیہ فیصل آباد کے ماہرین زراعت نے بتایاکہ پاکستان کماد کی کاشت کے حوالے سے دنیا کے ٹاپ ٹین ممالک میں شامل ہونے کے باوجود فی ایکڑ پیداوار اور شوگر ریکوری میں بہت پیچھے ہے جس کیلئے خصوصی اقدامات کرنے اور جدید ٹیکنالوجی کے ساتھ ساتھ زرعی مداخل سستاکرنے اور تمام وسائل سے استفادہ کی ضرورت ہے۔

انہوں نے کہاکہ ایسے پروگرام صرف اسی صورت ہی سودمند ہیں جب ہم ان سے حاصل ہونیوالی قیمتی معلومات، تجربات اور نتائج کسانوں تک پہنچائیں کیونکہ اگر فارمرز کی پیداوار بڑھے گی تو اس سے سب کو فائدہ ہو گا۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہاکہ فصلوں کی روایتی پیداور پر اکتفا کر لینا درست نہ ہے لہٰذا ہمیں مستقبل کے تقاضوں کو مدنظر رکھ کر اپنی پیداوار میں اضافہ کرنا ہو گا۔

انہوں نے کہا کہ ٹیکنالوجی کوئی بھی ہو بری نہیں ہوتی تاہم اپنے وسائل کو سامنے رکھتے ہوئے کوئی بھی ٹیکنالوجی استعمال کر لی جائے اس کا مقصد فی ایکڑ پیداوار کا زیادہ سے زیادہ حصول ہونا چاہیے۔ انہوں نے کہاکہ اگر ہم ایک ایکڑ میں کماد کے 70ہزار پودے لگائیں تو پیداوار آٹھ سو من سے کم بالکل نہیں آئیگی۔ انہوں نے کہاکہ کسانوں کیلئے سہولیات و رہنمائی کی کمی فرٹیلائزر، مشینری، ڈیزل، بجلی وغیرہ کی مہنگائی اور لوڈشیڈنگ جیسے مسائل پیداوار میں کمی کی وجہ ہیں جن پر قابو پانے کی ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے گزشتہ پندرہ سالوں میں گنا کی پیداوار میں اعشاریہ پانچ فیصد اور شوگر ریکوری میں صرف دو فیصد تک اضافہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پیداوار میں اضافہ کماد کی جدید ورائٹیز کو فروغ دیکر ہی کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے تجویز پیش کی کہ شوگر ملوں کے فاضل میٹریل کو فصلوں کی ذرخیزی کیلئے استعمال میں لایا جانا چاہیے کیونکہ کمپوسٹ مڈ سے نامیاتی مادے کی کمی بھی دور کی جا سکتی ہے۔