کاشتکاروں کو مناسب وقت پر دھان کی کٹائی اور پھنڈائی کاعمل مکمل کرنے کی ہدایت

جمعرات 3 ستمبر 2015 17:00

فیصل آباد ۔3 ستمبر (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 03 ستمبر۔2015ء)دھان کی موٹی اقسام پک کر کٹائی اور پھنڈائی کیلئے تیار ہو گئی ہیں لہٰذاچاولوں کی عمدہ کوالٹی برقراررکھنے کیلئے کاشتکاروں کو مناسب وقت پر کٹائی اور پھنڈائی کاعمل مکمل کرنے کی ہدایت کی گئی ہے اورکہاگیاہے کہ اگر بروقت کٹائی و پھنڈائی کا عمل مکمل نہ کیا جائے تو دھان کی پیداوار کا5سے10فیصد حصہ ضائع ہو سکتاہے۔

ایوب ریسرچ کے شعبہ اگرانومی کے ماہرین زراعت نے بتایا کہ فصل کی کٹائی اس وقت شروع کی جائے جب اس میں نمی کی مقدار 20سے22فیصد ہو ۔انہوں نے بتایاکہ اگیتی کٹائی کی صورت میں مونجر میں سبز اور کچے دانوں کی تعداد زیادہ ہوتی ہے اور ان کی نشوونما نامکمل ہوتی ہے اسی طرح اگر فصل کو پوری طرح پک جانے کے بعد کھیت میں کھڑا رہنے دیا جائے تو ضرورت سے زیادہ پکنے اور خشک ہونے کی صورت میں دانوں میں چوڑی پڑ جاتی ہے جس کی وجہ سے چاول چھڑائی میں ٹوٹ جاتے ہیں۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہاکہ جب دھان کی فصل پکنے کے مرحلے میں داخل ہوجائے تو فصل کی کٹائی سے دوہفتے قبل کھیت سے پانی نکال دیں اور اس کو خشک ہونے دیں ۔انہوں نے کہاکہ کٹائی کرتے وقت فصل کو زمین کے قریب سے کاٹیں تو دھان کے تنے کی سنڈیاں پرالی میں چلی جاتی ہیں اور تلف ہوجاتی ہیں جس کے بعد کاشتکارکٹائی کے بعد اس کی پھنڈائی جلد مکمل کریں اور فصل کو کھیت میں زیادہ دیر نہ رہنے دیں کیونکہ کھیت میں پڑی فصل رات کو اوس سے بھیگ جاتی ہے ۔

انہوں نے کہاکہ دھان کی فصل کا 20فیصد حصہ مزدوروں سے کٹوایا جاتاہے اور 80فیصد رقبہ پر دھان کی کٹائی کیلئے کمبائن ہارویسٹر کا استعمال کیا جاتا ہے لہٰذاکمبائن ہارویسٹر کو کھیت میں صحیح طریقہ سے چلانا اور کارکردگی بڑھانے کیلئے ہارویسٹر اور ریل کی ایڈجسٹمنٹ کرنا بھی ضروری ہے ۔انہوں نے کہاکہ کاشتکار کمبائن کی کھیت میں چلنے کی رفتار کا تعین کرتے وقت فصل کی قسم ، قد ، نمی اور حالت کو مدنظر رکھیں اورفصل کی اونچائی کی ریل اس طرح ایڈجسٹ کریں کہ ریل کا مرکز کٹر بار سے تھوڑا سا آگے اور ریل کا نچلا حصہ فصل کے سٹوں کے نیچے ہو۔

انہوں نے کہاکہ خیال رکھاجائے کہ تھریشننگ میں دانوں کو پرالی سے جد اکرتے وقت دانوں کا ضیاع ایک فیصد سے زیادہ نہ ہو ۔انہوں نے کہاکہ کٹائی اور پھنڈائی میں بے احتیاطی اور لاپرواہی سے بہت سے دانے ضائع ہوجاتے ہیں جس سے مجموعی طورپر نقصان کئی منوں تک پہنچ جاتا ہے۔