حکومت کا سینئر صحافی ابصار عالم کو چیئرمین پیمرا لگانے کا فیصلہ

چیئرمین پیمرا کی تعیناتی کیلئے قائم کمیٹی نے 38 امیدواروں کے انٹرویوز مکمل

جمعہ 2 اکتوبر 2015 22:28

حکومت کا سینئر صحافی ابصار عالم کو چیئرمین پیمرا لگانے کا فیصلہ

لاہور(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 02 اکتوبر۔2015ء) حکومت نے سینئر صحافی ابصار عالم کو چیئرمین پیمرا لگانے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس حوالے سے چیئرمین پیمرا کی تعیناتی کیلئے قائم کمیٹی نے 38 امیدواروں کے انٹرویوز مکمل کر لئے ہیں۔ جن امیدواروں کے انٹرویو کئے گئے ان میں سینئر صحافی ابصار عالم، آئی جی اسلام آباد پولیس طاہر عالم جبکہ دیگر امیدواروں میں افتخار احمد میر، ظفر عباس اور دیگر شامل ہیں۔

ذرائع کے مطابق سیکرٹری اطلاعات اعظم خان نے بھی چیئرمین پیمرا کیلئے درخواست دی تھی۔ سیکرٹری اطلاعات اعظم خان دس اکتوبر کو ریٹائرڈ ہو رہے ہیں۔ چیئرمین پیمرا کی تعیناتی کیلئے قائم کمیٹی میں وزیر اطلاعات پرویز رشید کو کہہ چکے ہیں جس کے بعد چیئرمین پیمرا کی تعیناتی کیلئے دو ماہ قبل اخبارات میں اشتہار دیا گیا اور درخواستیں طلب کی گئیں۔

(جاری ہے)

حکومت کی طرف سے اسلام آباد ہائیکورٹ میں سابق چیئرمین پیمرا چوہدری رشید برطرفی کیس میں بھی یہ موقف اپنایا گیا تھا کہ حکومت نئے چیئرمین پیمرا کی تعیناتی کیلئے اشتہار دے گی اور چوہدری رشید بھی اس کیلئے درخواست دے سکتے ہیں۔ چیئرمین پیمرا کے لئے 100 سے زائد درخواستیں موصول ہوئیں جن میں سے اڑتالیس امیدواروں کو انٹرویوز کے لئے بلایا گیا حکومت کی طرف سے قائم کمیٹی نے 1820 امیدواروں کے انٹرویوز گزشتہ روز انتیس ستمبر کو کئے جبکہ بیس امیدواروں کے انٹرویوز 30 ستمبر کو ہوئے۔

حکومتی ذرائع کے مطابق چیئرمین پیمرا کی تعیناتی کے لئے سب سے مضبوط امیدوار سینئر صحافی ابصار عالم ہیں جن کا نام فائنل کیا جا چکا ہے جبکہ دوسرے نمبر پر آئی جی اسلام آباد طاہر عالم بھی مضبوط امیدواروں میں شامل ہیں۔ دوسری طرف سے سابق چیئرمین پیمرا چوہدری رشید نئے چیئرمین کی تعیناتی کو اسلام آباد ہائیکورٹ میں چیلنج کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

ان کے وکیل کے مطابق چوہدری رشید کی طرف سے دائر تمام کیسز کا فیصلہ ہونے تک نیا چیئرمین پیمرا نہیں لگا سکتی۔ دوسری جانب کئی امیدواروں نے تقرری کے عمل پر شکوک و شبہات کا اظہار کیا ہے ان کا کہنا تھا کہ پیمرا ایکٹ میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ اتھارٹی کا چیئرمین اچھی ساکھ اور اہلیت کا حامل معروف پیشہ وارانہ شخص ہوگا جو میڈیا بزنس مینجمنٹ، فنانس، اکنامکس اور قانون میں خاطر خواہ تجربہ رکھتا ہو جبکہ سپریم کورٹ کے 15 جنوری 2013ء کے آرڈر میں واضح طور پر لکھا تھا کہ چیئرمین پیمرا کے عہدے پر ایسے فرد کو تعینات کیا جائے گا جو غیر معمولی اہلیت کا حامل اور پیمرا آرڈیننس میں درج شرائط پر پورا اترتا ہو نہ کہ سرسری انداز میں تقرری کی جائے گی۔

ان امیدواروں نے نام ظاہر نہ کرتے ہوئے بتایا کہ حکومت کی بدنیتی وزارت اطلاعات کے دو مختلف اشتہارات سے واضح ہوئی۔ پہلے 23 جولائی 2014ء کو چیئرمین پیمرا کی خالی آسامی مشتہر کی گئی پھر 24 اگست 2015ء کو اشتہار دیا گیا جس میں قواعد و ضوابط اور شرائط کو پسندیدہ امیدوار کیلئے موم کی طرح موڑ دیا گیا۔ 2014ء کے اشتہار میں امیدواروں کے لئے کم از کم تعلیمی قابلیت ماسٹر ڈگری رکھی گئی تھی۔

2015ء کے اشتہار میں اسے تبدیل کر کے صرف گریجوایٹ (بی اے/ بی ایس سی) کر دیا گیا۔ پہلے عمر کی حد 50 سے 65 سال مقرر کی گئی اب اسے 50 سے 61 سال کر دیا گیا۔ گزشتہ برس مشتہر کیا گیا کہ امیدوار کا انتخاب اعلیٰ عدلیہ کے فیصلے کی مناسبت سے طریقہ کار کے مطابق کیا جائے گا۔ 2015ء کے اشتہار میں عدلیہ کے فیصلوں کا کوئی ذکر نہیں تھا بلکہ صرف یہ کہا گیا کہ تقرری حکومت پاکستان کے سول اسٹیبلشمنٹ کوڈ 2007ء میں درج طریقہ کار کے مطابق ہوگی جس میں خود مختار اداروں میں تقرریاں وفاقی حکومت ایک صوابدید پر ہے ایک اور تبدیلی یہ کی گئی کہ ایسے سرکاری ملازمین جو مطلوبہ اہلیت پر پورا اترتے ہیں ان کے لئے لازم ہوگا کہ وہ اپنی درخواست کے ساتھ حلف نامہ دیں کہ منتخب ہونے کی صورت میں اپنی موجودہ ملازمت سے استعفیٰ دے دیں گے حالانکہ 2014ء میں ایسی کوئی شرط لاگو نہیں کی گئی تھی۔

ایک امیدوار کا کہنا تھا کہ دو سینئر بیوروکریٹس کو اس عہدے کے لئے اپنی درخواستیں واپس لینے کی ہدایت کی گئی کیونکہ اعلیٰ حکومتی شخصیت اپنے پسندیدہ امیدوار کو نوازنے کا حکم دے چکی تھی اعلیٰ حکومتی شخصیت کو اس کی وجہ اسٹیبلشمنٹ کے خلاف جارحانہ رویہ نظر آتی ہے۔ حکومتی شخصیت کے ساتھ دیرینہ مراسم اس فیصلے کا باعث بنے۔ اس لئے مطلوبہ شرائط کو پسندیدہ امیدوار کی خاطر تبدیل کیا حالانکہ اسے اتنی اہم پوزیشن پر کام کا کوئی تجربہ بھی نہیں۔

ذمہ دار ذرائع کے مطابق حکومتی شخصیت اپنے پسندیدہ شخص کو اس عہدے پر لا کر الیکٹرانک میڈیا کو کنٹرول کرنے کی خواہش مند ہے۔ اس حوالے سے یہ سوال بھی اٹھایا جا رہا ہے کہ ایسا شخص جو مختلف صحافتی اداروں میں کام کر چکا ہو وہ کسی طرح غیر جانبدارانہ اور غیر متعصب رہ کر کام کر سکے گا جو کہ اس منصب کا بنیادی تقاضہ ہے۔ یہاں مفا تضادم کا بھی سوال آئے گا۔ دوسری جانب انفارمیشن سروس کے ایسے سینئر افسر جو اس معاملے میں بھرپور مہارت رکھتے ہیں اس اپنے حق تلفی اور شاہانہ فیصلہ قرار دیا ہے۔

متعلقہ عنوان :