ملک میں سکول نہ جانیوالے بچوں کی تعداد میں کچھ کمی آئی ،اب بھی 6سے سال کی عمرکے 20 فیصد بچے سکول نہیں جا رہے‘ رپورٹ

جمعہ 18 دسمبر 2015 16:58

لاہور( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔18 دسمبر۔2015ء) پاکستان میں تعلیم کی صورتحال پر کام کرنے والے ایک غیر سرکاری ادارے کی سالانہ رپورٹ کے مطابق اگرچہ ملک میں سکول نہ جانے والے بچوں کی تعداد میں کچھ کمی آئی ہے تاہم اب بھی 6سے 16سال کی عمر کے 20 فیصد بچے سکول نہیں جا رہے۔غیر سرکاری ادارے ” اثر “ کی سالانہ رپورٹ برائے سال 2015 ء کے مطابق پاکستان میں سنہ 2014ء میں سکول نہ جانے والی بچوں کا تناسب 21فیصد تھا جو ایک فیصد بہتری کے بعد اس سال 20فیصد رہا۔

ان میں سے کبھی بھی سکول نہ جانے والے بچوں کی شرح 14فیصد اور مختلف وجوہات کی بنا ء پر سکول چھوڑنے والے بچوں کی شرح 6فیصد تھی۔یہ سروے پاکستان کے تقریبا 150دیہی اور 21شہری حلقوں میں کیا گیا جس میں 6سے 16سال کی عمروں کے 2لاکھ 20ہزار سے زیادہ بچوں کی زبان (اردو، سندھی، پشتو) سمیت انگریزی اور ریاضی میں مہارت کے حوالے سے جائزہ لیا گیا۔

(جاری ہے)

رپورٹ کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ صوبہ سندھ میں پرائمری سکولوں میں داخلوں کی شرح سب سے کم رہی۔

صوبے میں تعلیم کی دگرگوں حالت پر بات کرتے ہوئے ”اثر “ کی کارکن بیلا رضا جمیل نے کہا کہ صوبے میں اب بھی اچھی حکمرانی کے بہت سے مسائل ہیں اور اب بھی وہاں جاگیرداری نظام پایا جاتا ہے۔اب بھی سندھ میں سکولوں کی حالت بہتر بنانے اور اساتذہ کو لانے کی ضرورت پر زور نہیں دیا جا رہا۔رپورٹ کہتی ہے کہ ویسے توسرکاری سکولوں کی نسبت نجی سکولوں میں طلبا کی کارکردگی بہتر رہی لیکن یہ بھی دیکھنے میں آیا کہ والدین نے نجی سکولوں میں پڑھنے والے پانچ فیصد بچوں کو وہاں نکال کر سرکاری سکولوں میں داخل کروایا۔

اس کے علاوہ 2015ء میں سرکاری سکولوں میں 6سے 16سال عمر کے بچوں کے داخلوں کی شرح میں بھی 6فیصد اضافہ ہوا۔اس سلسلے میں بیلا رضا جمیل کا کہنا تھا کہ ہمیں حکومتی سطح پہ ایک تحریک نظر آ رہی ہے اور وہ جو بھی تھوڑا بہت بجٹ خرچ کر رہے ہیں اس کی شفافیت کو یقینی بنا رہے ہیں جو ایک خوش آئند بات ہے۔رپورٹ میں تعلیم کے شعبے میں صوبوں کی کارکردگی اور حکام کی جانب سے مختلف اقدامات جیسے کہ بائیومیٹرک نظام کی تنصیب وغیرہ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ تعلیمی اداروں میں اساتذہ کی حاضری میں اضافہ ہوا ہے اور اس سال بچوں میں سیکھنے کے رجحان میں 10فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا تاہم مجموعی صورتحال اب بھی بہت خراب ہے۔

رپورٹ کے لیے کیے گئے سروے کے مطابق نجی سکولوں کے مقابلے سرکاری سکولوں میں داخل طلبا کی انگریزی، ریاضی اور ان کی مادری زبان کے تعلیمی معیار کی حالت نا گفتہ بہ رہی اور پانچویں جماعت کے تقریباً نصف فیصد بچے دوسری کلاس کی سطح کی اردو، سندھی اور پشتو کہانی نہیں پڑھ سکے۔اس کے علاوہ پانچویں جماعت کے بچے انگریزی کے وہ فقرے یا ریاضی کے وہ بنیادی سوالات حل کر پائے جو دراصل دوسری جماعت کے طلبا کو آنے چاہیے تھے۔رپورٹ کے مطابق 2015ء میں لڑکیوں کے سکولوں میں داخلے کی شرح میں بھی کوئی خاطر خواہ اضافہ دیکھنے میں نہیں آیا اور نتائج سے ظاہر ہوتا ہے کہ امیر اور غریب کے فرق سے قطع نظر دونوں طبقات میں لڑکیوں کو تعلیم دلوانے کا رجحان کم ہی پایا جاتا ہے۔