پاکستان کا کپاس کی کل پیداوار کے لحاظ سے چوتھا،فی ایکڑ پیداوار کے لحاظ سے سولہواں نمبر

کاشتکارکپاس کی کاشت اپریل کے مہینہ میں مکمل کریں‘ ترجمان محکمہ زراعت پنجاب

جمعہ 1 اپریل 2016 17:30

لاہور ( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔یکم اپریل۔2016ء) پاکستان کپاس کی کل پیداوار کے لحاظ سے چوتھے جبکہ فی ایکڑ پیداوار کے لحاظ سے سولہویں نمبر پر ہے ۔ پنجاب کو کپاس کاشت کے حوالہ سے خصوصی اہمیت حاصل ہے کیونکہ کپاس کی مجموعی پیداوار کا 80فیصد پنجاب میں پیدا ہوتا ہے ۔ محکمہ زراعت پنجاب کے ترجمان نے کاشتکاروں کو سفارش کی ہے کہ وہ کپاس کی کاشت اپریل کے مہینہ میں مکمل کریں۔

محکمہ زراعت پنجاب کی منظور شدہ اقسام ایف ایچ 142،سی آئی ایم 598، ستارہ 009، علی اکبر802اور ایم این ایچ886 کی کاشت کو ترجیح دیں کیونکہ یہ اقسام اچھی پیداوار کے حصول کے ساتھ کم پانی اور زیادہ درجہ حرارت کو برداشت کرتی ہیں۔ان اقسام میں کپاس کی پتہ مروڑ وائرس بیماری کے خلاف زیادہ قوت مدافعت موجود ہے ۔

(جاری ہے)

اس سال پنجاب سیڈ کارپوریشن کے پاس ان اقسام کا معیاری بیج وافر مقدار میں موجود ہے اور تمام اضلاع میں رجسٹرڈ ڈیلرز کے ذریعے بیج کی فروخت شروع ہے ۔

کاشتکار فیڈرل سیڈ سرٹیفیکیشن ڈیپارٹمنٹ کی رجسٹرڈ پرائیویٹ سیڈ کمپنیوں کا بیج بھی استعمال کر سکتے ہیں ۔کپاس کی کاشت پٹڑیوں پر کریں کیونکہ اس سے پانی کی بچت کے ساتھ بارش یا آبپاشی کی صورت میں سپرے کرنا آسان ہوتا ہے۔پٹڑیوں کا درمیانی فاصلہ اڑھائی فٹ اور گہرائی 8تا 10انچ ہونا ضروری ہے ۔بہتر روئیدگی والا 6سے 8کلوگرام بْر اترا ہوا بیج فی ایکڑ استعمال کریں ۔

گھریلو پیمانے پر بیج کی تیاری کے لیے بوائی سے پہلے بیج سے براتارنے کیلئے گندھک کا تجارتی تیزاب بحساب ایک لیٹر فی 10کلو گرام بیج استعمال کریں ۔بر اتارنے کے بعد بیج کو صاف پانی سے اچھی طرح دھولیں اور یہ یقین کرنے کیلئے کہ بیج سے تمام تیزاب نکل چکا ہے لٹمس پیپر استعمال کریں۔ اگر لٹمس پیپر کا رنگ سرخ نہ ہو تو سمجھ لیں کہ بیج میں تیزاب باقی نہیں رہا۔

بوائی سے پہلے پانی کی بالٹی یا ٹب میں بیج ڈال کر تیرنے والی بیج الگ کرلیں اور صرف نیچے بیٹھ جانے والے بیج ہی بوائی کیلئے استعمال کریں۔ بوائی سے پہلے بیج کو کیڑے مار زہر امیڈا کلوپرڈ 70WSبحساب 10گرام فی کلو گرام بیج لگانا ضروری ہے۔ بیج کو زہر آلود کرنے سے کپاس کی فصل ابتدا ئی ایک تا ڈیڑ ھ ماہ رس چوسنے والے کیڑوں بالخصوص سفید مکھی اور سبز تیلہ کے حملہ سے محفوظ رہتی ہے ۔

متعلقہ عنوان :