امریکی مسلمانوں کا ڈیئر بورن، مشی گن کے نزدیک " بڑی جھیلوں" سے تعلق صدیوں پر محیط ہے‘ جو جنوبی کیرولائنا کے مرٹل ساحل کے پانیوں تک پھیلی ہوئی ہیں‘امریکی مسلمان زندگی کے ہرشعبے میں خدمات انجام د ے رہے ہیں :خصوصی رپورٹ

Mian Nadeem میاں محمد ندیم جمعہ 29 اپریل 2016 14:06

امریکی مسلمانوں کا ڈیئر بورن، مشی گن کے نزدیک " بڑی جھیلوں" سے تعلق صدیوں ..

واشنگٹن(ا ردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔29اپریل۔2016ء) امریکی مسلمانوں کا ڈیئر بورن، مشی گن کے نزدیک " بڑی جھیلوں" سے گہرا تعلق ہے، جہاں ان کے آباواجدادنے ایک سو سال پہلے اپنی جڑیں چھوڑیں جوکہ جنوبی کیرولائنا کے مرٹل ساحل کے پانیوں تک پھیلی ہوئی ہیں جس کے قریب شمالی امریکہ کی قدیم ترین صوفی کمیونٹیوں میں سے ایک کمیونٹی ہے یا کوئی ایسی جگہ ہو سکتی ہے جہاں مسلمان امریکی معاشرے کو اپنی شراکت،اور شمولیت سے شاندار بنا رہے ہیں اور اس ملک کو دینے کی خواہش رکھتے ہیں جس نے انہیں اپنے خواب پورے کرنے کا موقع دیا ہے۔

امریکہ میں مسلمان یکساں نہیں ہیں۔ نسلی اعتبار سے وہ جتنے متنوع لوگ ہیں، اتنے ہی وہ ذہانت، تجربے اور مذہبی روایات کے حوالے سے متنوع ہیں۔

(جاری ہے)

افریقی نژاد امریکی باکسر محمد علی کا کھلاڑی پن اور ترک نژاد امریکی، دل کے سرجن اور ٹیلی وڑن شو کے میزبان، ڈاکٹر مہمت اوز کے طبی مشورے ا±ن چیزوں کی علامتیں ہیں جو کچھ امریکی مسلمان ہر روز اپنے ملک کو دیتے ہیں۔

صوفی معالج ایریزونا کے صحراوَں میں رہنے والے امریکی انڈین لوگوں کے لئے مختص علاقوں میں جا کر ان کی خدمت کرتے ہیں۔ مزاحیہ کلبوں میں ایرانی نژاد ماز جبرانی اوروکیل سے مزاحیہ اداکار بننے والے فلسطینی- اطالوی نژاد امریکی ڈین عبیداللہ، جب نسلیت، مذہب اور ثقافت کے بارے میں نکتے اٹھاتے ہیں تو لوگوں کی ہنسی چھوٹ جاتی ہے۔ مرکزی دھارے کے سنی اور شیعہ‘ صوفیوں سمیت امریکی مسلمان اسلام کی مختلف راہوں کو اپنائے ہوئے ہیں۔

اگرچہ بعد الذکر دو کوقدامت پسند اسلام نہیں سمجھا جاتا، تاہم وہ اسلام کے اصولوں پر عمل کرتے ہیں یا ان سے متاثر ہیں۔ان راستوں کی بہترین مثالیں ملک بھر میں ہونے والے بین المذاہب کے فروغ پر مبنی پروگراموں میں دیکھنے میں آتی ہیں۔ مذہبی اور کمیونٹی کے لیڈروں کے درمیان بحث و مباحثہ اور تمام عقائد کے فنکاروں اور مفکرین کا آپس میں تعاون، باہمی افہام و تفہیم کو پروان چڑھاتا ہے اور اتحاد پیدا کرتا ہے۔

یہی امریکی طرززندگی کا بنیادی نکتہ ہے۔ اسی طرح کی ایک پیش قدمی میں چند سال پہلے نیو یارک کے بین المذہبی گرجا گھر نے کمیونٹی کے مابین بحث مباحثے اور خوشی منانے کے لئے، مذہبی راہنماوَں اور ثقافتی ماہرین کو اکٹھا کیا۔ حاضرین میں ھپ۔ھاپ کے اولین فن کار اسلام برادرز ، کثیرالمذہبی قرطبہ پیش قدمی والے امام فیصل عبد الروَف اور کئی مقامی امام شامل تھے۔

جدت پسند فلم ساز اور اساتذہ بھی وہاں موجود تھے۔ یہ امریکی ثقافت کے تخلیق کار ہیں جنہوں نے شاید اسلام کاظاہری لبادہ تو نہ اوڑھ رکھا ہو مگر وہ باعمل مسلمان ہیں۔ ایک بڑی کاروباری شخصیت اور ڈیف جام موسیقی کی کمپنی کے شریک بانی، رسل سمنز بھی اعانت کے لئے وہاں موجود تھے۔ جب ہر طرف سے کشادہ دلی کا مظاہرہ کیا جارہا ہو تو میں نے دیکھا ہے کہ اس طرح کے میل جول سےنئی مفاہمت، احترام اور باہمی فائدے جنم لیتے ہیں۔

فن کے میدانوں میں مسلمان نئے باب رقم کررہے ہیں۔ اس کی مثال نیگن فرساد ہیں جو ایک منہ پھٹ مزاحیہ اداکار اور فلم ساز ہیں وہ دستاویزی فلم " مسلمان آرہے ہیں" کے ستاروں میں سے ایک ہیں۔ کیلی فورنیا میں مسلمان فن کار جیسے لیزا گارزا، شاعرہ ہیں اور زیورات تیار کرتی ہیں اور افغان نژاد ملٹی میڈیا فن کار آریانہ دلاوری اپنی موسیقی اور دستاویزی فلموں میں اپنے ورثے کو پیش کرتی ہیں۔

انہوں نے طبلہ، رباب، اور دلربا کے تین کلاسیکی اساتذہ کے ساتھ مل کر اپنا" پنج شیر کا شیر" کے نام سے البم بنایا ہے۔ اور اوکلاہوما میں پلی بڑھی کریم سلمہ بے ساختگی سے اسلام کی قدیم تعلیمات سے ماخوذ دانائی کو لوک موسیقی کی قلبی صنف، قصہ گوئی کے ساتھ ملاتی ہیں۔امریکہ میں تارکین وطن کی پیہم لہروں نے جن میں کئی ایک مسلمان تھے، ایسے کاروبار کھول کر اپنے نئے ملک میں قدم جما لئے ہیں جن سے ان کی منفرد ثقافتی اقدار اور روایات، امریکی ثقافت میں جمع ہوتی جاتی ہیں۔

تارکین وطن کاروباری لوگ اکثر کھانے سے کاروبار کاآغاز کرتے ہیں۔ باہمی مفاہمت کے اجزائے ترکیبی مقامی ترک طعام گاہ میں مسور کی دال کے سو±پ یا کیلی فورنیا کی سیلیکون ویلی میں افغان کباب کسی دکان میں پیش کیے جاتے ہیں۔ نیویارک میں حلال کھانے کے ٹھیلوں کا پھیلاوَ اور ملک بھر میں چھوٹے شہروں میں پھیلے ہوئے فلافل کوفتے اور شیشے کے ہال، یہ ظاہر کرتے ہیں کہ امریکی کتنی دلچسپی سے مسلمان تارکین وطن کے کھانوں اور رواج کو اپناتے ہیں جیسا کہ وہ دیگر کئی تارکین وطن کی ثقافتوں کو اپنا چکے ہیں۔

لیکن امریکی مسلمان امریکی ثقافتی رنگا رنگی میں کھانے سے بڑھکر اپنا حصہ ڈالتے ہیں۔ وہ انسان دوست، فن کار، فلم ساز اور مصنف ہیں۔ وہ سائنسدان اور معلم ہیں۔ ایک ساحل سے لے کر دوسرے ساحل تک وہ سوشل میڈیا کے ایسے اختراعی پلیٹ فارم اور کاروبار شروع کرتے ہیں جن سے ہزاروں کو روزگار ملتا ہے۔ وہ ایسے فوجی ہیں جو دلیری سے اپنے وطن کا دفاع کرتے ہیں۔ وہ امریکی ہیں۔

متعلقہ عنوان :