نوشکی ڈرون حملے کا عسکری قیادت کو بھی علم نہیں تھا، حملے کو انٹیلی جنس کی ناکامی کہنا بے بنیاد ہے ،

کئی اندرونی اور بیرونی عناصر ملوث ہیں لیکن کئی باتیں ایسی ہیں جنہیں افشا نہیں کیا جاسکتا، پاکستان کے پاس ابھی تک ایسی کوئی بھی ٹیکنالوجی موجود نہیں جس سے ڈرون کا پتا لگایا جاسکے، پاکستان ڈرون حملوں پر احتجاج تو کرسکتا ہے، لیکن ان کا منہ توڑ جواب دینے کا متحمل نہیں ہوسکتا، ایسے حملوں کی کبھی اجازت نہیں دی جائے گی وزیراعظم کے معاونِ خصوصی امور خارجہ طارق فاطمی کا انٹرویو

اتوار 29 مئی 2016 15:58

نوشکی ڈرون حملے کا عسکری قیادت کو بھی علم نہیں تھا، حملے کو انٹیلی جنس ..

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔29 مئی۔2016ء ) وزیراعظم کے معاونِ خصوصی امور خارجہ طارق فاطمی نے کہا ہے کہ نوشکی ڈرون حملے کا عسکری قیادت کو بھی علم نہیں تھا، حملے کو انٹیلی جنس کی ناکامی کہنا بے بنیاد ہے ،اس میں کئی اندرونی اور بیرونی عناصر ملوث ہیں لیکن کئی باتیں ایسی ہیں جنہیں افشا نہیں کیا جاسکتا، پاکستان کے پاس ابھی تک ایسی کوئی بھی ٹیکنالوجی موجود نہیں جس سے ڈرون کا پتا لگایا جاسکے، پاکستان ڈرون حملوں پر احتجاج تو کرسکتا ہے، لیکن ان کا منہ توڑ جواب دینے کا متحمل نہیں ہوسکتا، ایسے حملوں کی کبھی اجازت نہیں دی جائے گی۔

اپنے ایک انٹرویو میں وزیراعظم کے معاونِ خصوصی برائے خارجہ امور نے مزید کہا کہ ڈرون حملوں کی پالیسی سے امریکا کو تو نقصان ہوگا، ساتھ ہی خطے پر بھی اس کے منفی اثرات مرتب ہوں گے۔

(جاری ہے)

حقانی نیٹ ورک کے خلاف کارروائی سے متعلق سوال پر طارق فاطمی نے واضح کیا کہ پاکستان ناصرف حقانی نیٹ ورک، بلکہ تمام دہشت گرد گروپس کے خلاف ایکشن میں ہے، لیکن ہم طالبان کے ساتھ مذاکرات کرنے کی بھی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں۔

افغانستان میں امن صرف پاکستان نہیں لاسکتا، یہ تمام ممالک کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔ جب ان سے یہ پوچھا گیا کہ ایک طرف امریکا مسلسل پاکستان کی سرزمین کی خلاف ورزی کرتا ہے تو پھر ہم ان سے امداد کیوں لیتے ہیں تو طارق فاطمی نے کہا کہ ہماری کوشش یہی ہے کہ ہم امریکا سے کسی قسم کی امداد نہ لیں، لیکن اس کا تعلق ملکی اقتصادی صورتحال سے ہے اور یقیناً ہم کسی سے بھی امداد لینے کے خواہش مند نہیں ہیں۔

طارق فاطمی نے کہا کہ موجودہ حالات میں افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات کا عمل ایک غیر یقینی سی صورتحال کا شکار ہے، کیونکہ ملا منصور کے بعد ہمارے ادارے اب طالبان کی نئی قیادت کے ساتھ رابطہ کریں گے۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ اس بات کو رد نہیں کیا جاسکتا ہے کہ افغان امن عمل اور کیو سی جی نے جو فیصلہ کیا تھا اسے اس ڈرون حملے نے ختم کیا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ طالبان سے صرف پاکستان نہیں دوسرے ملک بھی رابطے میں ہیں اور دوسرے ممالک بھی یہ کہہ چکے ہیں کہ وہاں امن کا واحد راستہ مذاکرات ہی ہیں۔