امریکی اتحادکی شام کی ائیربیس پر بمباری میں 62 فوجی ہلاک

امریکی اتحاد کی جانب سے، ڈیر ایزور ایئر بیس میں داعش کے جنگجووٴں سے گِھری ہوئی شامی فورسز کے خلاف چار فضائی حملے کیے گئے حملہ افسوسناک ہے،اقوام متحدہ/دانستہ بمباری پر افسوس ہے،امریکا اکا اعتراف/80فوجی ہلاک ہوئے،شامی آبزرویٹری/باغی گروپ جنگ بندی سے فائدہ اٹھا کر ازسرنو منظم ہو رہے ہیں،روسی صدر

اتوار 18 ستمبر 2016 11:39

امریکی اتحادکی شام کی ائیربیس پر بمباری میں 62 فوجی ہلاک

واشنگٹن/دمشق/ماسکو(اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔ 18 ستمبر - 2016ء) جنگ زدہ شام کے مشرقی علاقے میں واقع ایئر بیس پر امریکی اتحادی طیاروں کے فضائی حملوں میں62 سے زائد شامی حکومتی فوجی ہلاک اور متعدد زخمی ہوگئے،۔ادھر ایک بیان میں اقوام متحدہ کا کہنا تھا کہ اسے امریکی اتحاد کی قیادت والے طیاروں سے ہونے والے حملے پر افسوس ہے کیونکہ اس کے مطابق ان طیاروں سے نادانستہ طور پر شامی افواج کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔

اس کے ساتھ ہی اس نے روس کی بھی تنقید کی جس نے اس حملے کے جواب میں اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کا ہنگامی اجلاس طلب کیا ہے۔اقوام متحدہ نے اسے ماسکو کی جانب سے کی جانے والی ’بازی گری‘ قرار دیا ہے۔ترکی اور شام کی سرحد پر امدادی سامان سے لدے 20 ٹرک پیر سے محفوظ راستہ ملنے کے انتظار میں کھڑے ہیں۔

(جاری ہے)

تاہم اقوامِ متحدہ کو ابھی تک شامی حکومت کی جانب سے اجازت نامے نہیں ملے۔

بعدازاں امریکی اتحادی افواج کی سینٹرل کمانڈ تسلیم کیا کہ انھوں نے ان ٹھکانوں کا دولت اسلامیہ کا ٹھکانہ سمجھ کر حملہ کیا جس پر وہ کئی دنوں سے نظر رکھ رہے تھے۔ امریکہ کا کہنا تھاکہ جب انھیں شامی علاقے دیر الزور میں شامی فوجیوں کی موجودگی کے بارے میں بتایا گیا تو اس کے طیاروں نے وہاں حملہ روک دیا اور انھوں نے یہ جانتے ہوئے پھر وہاں حملہ نہیں کیا۔

جبکہ امدادی ادارے سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس کے مطابق ہلاکتوں کی تعداد کم از کم 80 ہے۔غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق ایک بیان میں روسی آرمی نے بتایا کہ جنگ زدہ شام کے مشرقی علاقے میں واقع ایئر بیس پر امریکی اتحادی طیاروں کے فضائی حملوں میں62 سے زائد شامی حکومتی فوجی ہلاک اور متعدد زخمی ہوگئے۔ روسی فوج کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ امریکی اتحاد کی جانب سے، ڈیر ایزور ایئر بیس میں داعش کے جنگجووٴں سے گِھری ہوئی شامی فورسز کے خلاف 4 فضائی حملے کیے گئے۔

بیان میں کہا گیا کہ فضائی حملے شام کے پڑوسی ملک عراق سے آنے والے ایف سولہ اور اے ٹین جیٹ طیاروں نے کیے، جس کے نتیجے میں 62 شامی فوجی ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے۔امریکی فضائی حملوں کے جواب میں داعش کی جانب سے بھی کارروائی کی گئی، جس کے بعد دہشت گردوں کے خلاف شدید لڑائی کا آغاز ہوگیا۔بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ اگر امریکا کی جانب سے یہ فضائی کارروائی ہدف کو نشانہ بنانے میں کسی غلطی کا نتیجہ ہے تو اس کے براہ راست اثرات ہوں گے، کیونکہ اس طرح امریکا نے شام میں دہشت گردوں کے خلاف جنگ میں روس سے تعاون کرنے سے انکار کیا ہے۔

شام کی سرکاری نیوز ایجنسی کی رپورٹ میں روسی فوج کے بیان کے حوالے سے مزید کہا گیا کہ ’شامی فوج پر امریکا اور اس کے اتحادی ممالک کا حملہ اس بات کا واضح ثبوت ہے وہ دہشت گرد تنظیم ’داعش‘ کی مدد کر رہے ہیں۔واضح رہے کہ امریکا اور روس کے درمیان چند روز قبل ہی شام میں جنگ بندی کا معاہدہ طے پایا تھا، جو اس حملے کی وجہ سے صرف 5 روز تک جاری رہا۔

روسی فوج کی جانب سے پہلے ہی کہا جاچکا ہے کہ اگر جنگ بندی کا معاہدہ ختم ہوا توا اس کا ذمہ دار امریکا ہوگا۔ روس کے صدر ولادی میر پوتن نے شام میں امریکی حکمتِ عملی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ شام میں باغی گروپ حالیہ جنگ بندی سے فائدہ اٹھا کر ازسرنو منظم ہو رہے ہیں۔انھوں نے کہا کہ امریکہ، جو کچھ گروپوں کی حمایت کر رہا ہے، ان کی فوجی صلاحیت کو برقرار رکھنے پر زیادہ توجہ دے رہا ہے بجائے اس کے کہ وہ اعتدال پسند عناصر کو شدت پسندوں سے الگ کرے جو پیر سے شروع ہونے والی جنگ بندی کا بنیادی مقصد ہے۔

پوتن نے واشنگٹن پر زور دیا کہ وہ جنگ بندی کے معاہدے کو منظر عام پر لائے۔اس سے پہلے بھی امریکہ اور روس کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہونے کے اشارے مل رہے تھے۔اپنے دورہِ کرغستان کے دوران دیئے گئے اس بیان میں صدر پوتن نے کہا کہ روس جنگ بندی کے معاہدے کے تحت اپنی ذمہ داریاں پوری کر رہا ہے اور شام کی حکومت بھی جنگ بندی کی ’مکمل طور پر پیروی‘ کر رہی ہے۔

تاہم انھوں نے کہا کہ ایسا دکھائی دیتا ہے کہ امریکہ حکومت کے مقابلے میں باغیوں کی فوجی صلاحیت کو برقرار رکھنے کی کوشش کر رہا ہے، جو ان کے مطابق ایک ’خطرناک راستہ‘ ہے۔روسی صدر نے کہا کہ ان کا ملک امریکہ کی اجازت کے بغیر کچھ بھی منظر عام پر نہیں لائے گا۔ انھوں نے کہا کہ وہ اقوامِ متحدہ کی قراردادِ پر اتفاق رائے کے بارے میں پرامید ہیں۔

ادھر ایک بیان میں اقوام متحدہ کا کہنا تھا کہ اسے امریکی اتحاد کی قیادت والے طیاروں سے ہونے والے حملے پر افسوس ہے کیونکہ اس کے مطابق ان طیاروں سے نادانستہ طور پر شامی افواج کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔اس کے ساتھ ہی اس نے روس کی بھی تنقید کی جس نے اس حملے کے جواب میں اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کا ہنگامی اجلاس طلب کیا ہے۔اقوام متحدہ نے اسے ماسکو کی جانب سے کی جانے والی ’بازی گری‘ قرار دیا ہے۔

ترکی اور شام کی سرحد پر امدادی سامان سے لدے 20 ٹرک پیر سے محفوظ راستہ ملنے کے انتظار میں کھڑے ہیں۔ تاہم اقوامِ متحدہ کو ابھی تک شامی حکومت کی جانب سے اجازت نامے نہیں ملے۔بعدازاں امریکی اتحادی افواج کی سینٹرل کمانڈ تسلیم کیا کہ انھوں نے ان ٹھکانوں کا دولت اسلامیہ کا ٹھکانہ سمجھ کر حملہ کیا جس پر وہ کئی دنوں سے نظر رکھ رہے تھے۔ امریکہ کا کہنا تھاکہ جب انھیں شامی علاقے دیر الزور میں شامی فوجیوں کی موجودگی کے بارے میں بتایا گیا تو اس کے طیاروں نے وہاں حملہ روک دیا اور انھوں نے یہ جانتے ہوئے پھر وہاں حملہ نہیں کیا۔جبکہ امدادی ادارے سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس کے مطابق ہلاکتوں کی تعداد کم از کم 80 ہے۔

متعلقہ عنوان :