طیبہ تشدد ازخود نوٹس کیس کی سماعت،طیبہ ہماری بیٹیوں کی طرح ہے،دیکھیں گے کہ عام قانون کے تحت اس مقدمے کو نمٹائیں یا غیر معمولی قدم اٹھائیں،سپریم کورٹ

بدھ 25 جنوری 2017 23:49

طیبہ تشدد ازخود نوٹس کیس کی سماعت،طیبہ ہماری بیٹیوں کی طرح ہے،دیکھیں ..
اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 25 جنوری2017ء) سپریم کورٹ آف پاکستان میں طیبہ تشد ازخود نوٹس کیس کی سماعت چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سر براہی میں تین رکنی بنچ نے سماعت کی، سماعت کے دوران ڈی آئی جی نے چالان عدالت میں پیش کر دیا،چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہم اس کیس کی تہہ تک جانا چاہتے ہیںیہ معاملہ دیکھیں گے کہ آیا ملزمہ خاتون اور اس کے شوہر کے خلاف کریمنل مقدمہ چلایا جائے ،چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیاملزمہ خاتون کے شوہر واقعتا ایک جوڈیشل افسر ہیں ،دیکھیں گے کہ عام قانون کے تحت اس مقدمے کو نمٹائیں یا غیر معمولی قدم اٹھائیں، بڑا معاملہ یہ ہے کہ وہ بچیاں جو گھروں میں کام کرتی ہیں ان کیلئے کیا قانون سازی ہوئی ،ایڈووکیٹ جنرل نے عدالت کو بتایا کہ طیبہ تشدد کیس کی تحقیقات مکمل ہو چکی ہیںمکمل چالان آج جمع کروائیں گے،اس موقع پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ایسے معاملات کو دبانے کی کوشش کی جاتی ہے،بچوں سے گھروں میں کام کروانا بڑا مسئلہ ہے،سماعت کے دوران عاصمہ جہانگیر نے عدالت کو بتایا کہ بچوں پر تشدد ایک بہت بڑا ظلم ہے،فیصل آباد کی جس خاتون کا نام سامنے آیا اس کی تحقیق نہیں ہوئی،دیکھنا ہو گا اس سارے نیٹ ورک کو کان چلاتا ہی ،اسی طرح کا ایک کیس لاہور میں بھی سامنے آیا ہے،چیف جسٹس ثاقب نثار نے عاصمہ جہانگیر سے مکالمہ کرتے ہوئے استفسار کیا کہ آپ چاہتی ہیں اس کیس کو پنجاب میں کسی مجسٹریٹ کے سامنے بھیج دیں،اسلام آباد کے ویسٹ یا ایسٹ کے کسی جج کے پاس معاملہ بھیج دیں،جس پر عاصمہ جہانگیر کا کہنا تھا کہ ہم چاہتے ہیں ایسا کیس دوبارہ نہ ہو،اس کیس سے لوگوں کی معلومات میں اضافہ ہونا چاہیے،عاصمہ جہانگیر کا اپنے دلائل میں مزید کہنا تھاکہ ہم تشدد زدہ بچی کے ساتھ ہیں لیکن اس کیس میںہمیں انصاف کے تقاضے پورے کرنے ہونگے،پولیس رپورٹ میں کام کیلئے بچے فراہم کرنے والے مافیا کے خلاف ایک لفظ نہیں لکھا گیا ،عدالت اپنا کام کرے اور دیگر شعبے اپنا کام کریں جو اس کا دائرہ اختیار ہے،عدالت نے استفسار کیا کہ اس کیس میں آپ وہ ٹرائل چاہتی ہیں کہ کیس ٹرائل کورٹ۔

(جاری ہے)

ہائیکورٹ یا پنڈی میں عدالتوں کو منتقل کریں،اس دوران عاصمہ جہانگیر کا کہنا تھا کہ اس کیس میں ملزم کو انصاف کا حق ملنا چاہیئے لیکن جس طرح سے ملزم کو اسکے جوڈیشل افسران نے تحفظ دیا وہ سوچنے کی بات ہے،اس کیس کو جتنی ہائپ ملی ہے اور اب متاثرہ بچی کو انصاف نہ ملا تو سارے عمل کا کوئی فائدہ نہیں ہوگاجس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اگر مقدمے کو منتقل کرناہے تو سوچ سمجھ کہ کرناہے،طیبہ ہماری بیٹیوں کی طرح ہے، اس کیس کو گہرائی سے دیکھنا ہوگااور یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ کیس ہم سن سکتے ہیں یا نہیں ، اگر کیس سنا تو اس نوعیت کے دیگر مقدمات بھی آسکتے ہیں،ہم اس نکتے کو نظر انداز نہیں کرتے کہ کس طرح سے ایک جوڈیشل افسر کو اس کے دیگر ساتھیوں نے ضمانت دی اور بچی حوالے کی،کیا یہ معاملہ سیشن کورٹ، ہائیکورٹ یا پنڈی کی عدالتوں کو بھیج سکتے ہیں اس بارے میں معاونت کریں،سماعت کے دوران ایڈیشنل جج اسلام آباد کی اہلیہ ملزمہ ماہین ظفر کے وکیل نے عدالت میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ مقدمے میں جو دفعات شامل کی گئی ہیں وہ قابل ضمانت ہیں،طیبہ تشدد کیس قابل ضمانت جرم ہیں یہ عدالت آرٹیکل 184/3کے تحت سماعت نہیں کر سکتی ہے،جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ لیکن ہم یہ توپوچھ سکتے ہیں کہ ملزمان کو جوڈیشل افسران نے کیسے ضمانت دی اور بچی حوالگی کا فیصلہ سنایااس معاملے پر دونوں جوڈیشل افسران کو نوٹس جاری کرسکتے ہیں،ان سے پوچھ سکتے ہیں کہ کیاانہوں نے ضمانت دینے اور بچی کے حوالگی سے پہلے کوئی نوٹس جاری کئے تھے،سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ مجھے بہت پریشانی ہو رہی ہے کہ ہمارے قانون میں ایسی بچی کا کوئی تحفظ موجود نہیں ،چیف جسٹس نے ایڈووکیٹ جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہاکہ یہ میری غلطی نہیں یہ قانون بنانے والوں کی غلطی ہے ،ناقابل ضمانت جرم کی دفعات شامل ہو سکتی ہیں یا نہیں جائزہ لیں،چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہمارے ملک میں بچوں کے تحفظ کا قانون ہی نہیں،قانون بنانا عدالت کی نہیں قانون بنانے والوں کی زمہ داری ہے کیایہ صحیح ہے کہ ایک جوڈیشل افسر کسی بچے کو کام پر رکھی ،چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ چالان میں ملزم کس کس کو نامزد کیا گیا ہی جس پر ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نے بتایا کہ ماہین ظفر اور خرم علی خان کو چالان میں ملزم نامزاد کیا گیا ہے،چیف جسٹس نے استفسار کرتے ہوئے کہا کہ پولیس نے اس بات کا نوٹس نہیں لیا کہ صلح نامہ تو طیبہ کے والدین نے تسلیم ہی نہیں کیا،سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ سمجھ نہیں آتا کہ بچی کے والدین کو وکیل کے پاس کون لے گیا اور وکیل نے کس طرح والدین سے بیان پر دستخط کرائے اور جوڈیشل افسر نے بچی حوالے کی ،چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا وکیل راجہ ظہور کو تفتیش میں شامل کیا گیاہی ،جس پر پولیس آفسیر نے بیان دیا کہ وکیل راجہ ظہور کو شامل تفتیش کے لئے سمن جاری کئے ہیں،جسٹس عمر عطاء بندیال کا کہنا تھا کہ پولیس کہ رہی ہے کہ چالان کل جمع کروائیں گے اس پر فسوس ہو اہے،یہ کیسی تفتیش ہے کہ بیانات مکمل ریکارڈ نہیں کئے گئے،تمام پہلوئوں پر تفتیش مکمل کی جائے تا کہ انصاف کے تقاضے پورے ہوں،جسٹس عمر عطاء بندیال کا کہنا تھاکہ پولیس اورجو تفتیشی ایجنسی اپنا کام نہیں کرتی تو ان کے خلاف ایکشن لینگے، جو افراد اس کیس میں ملوث ہیں ان کے خلاف کاورائی کی جائے ،وکیل ماہین ظفر نے عدالت کو بتایا کہ پولیس کو کیس کی تحقیقات سے کسی نے نہیں روکا،چیف جسٹس کا سماجی کارکن سے استفسارکرتے ہوئے کہنا تھا کہ بچوں کو کس طرح سے اغوا کرکے پھر ان سے کام کروائے جاتے ہیں،چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ خرم علی خان آئے ہیں کہ نہیں جس پر ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نے بتایا کہ ان کو تو نوٹس نہیں کیا گیا تھا،ضمانت کے معاملے پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہم پہلی ضمانت مسترد نہیں کر رہے مگر آپ دوبارہ ضمانت کیلئے درخواست دائر کریں ،پراسیکیوشن 370تعزیرات پاکستان کے شق کا جائزہ لے،کیا 370کی شق انسان کی خریداری اور فروخت کے بارے میں ہے وہ اس کیس میں لاگو ہو سکتی ہی ،بعدازاں عدالت نے مقدمے کی منتقلی کے حد تک کیس کی سماعت ایک ہفتے تک کیلئے ملتوی جبکہ مقدمے کی گھریلوملازمین کے اشوز پر سماعت تین ہفتے بعد سماعت ہوگی۔