سپریم کورٹ نے طیبہ تشدد کیس کا ٹرائل فوری طور پر روکنے کا حکم

طیبہ تشدد کیس کو درمیان میں نہیں چھوڑیں گے ،ْ ازخود نوٹس لیا ہے تو منطقی انجام تک بھی پہنچائیں گے ،ْ چیف جسٹس ہائی کورٹ 15 روز میں معاملے کا جائزہ لے کر کیس کی منتقلی سے متعلق واضح حکم جاری کرے ،ْعدالت عظمیٰ مجھے حکومتی حلقوں کی جانب سے کیس سے الگ ہونے کا کہا جارہا ہے ،ْ عدالت کو بیان حلفی بھی دینے کو تیار ہوں ،ْ عاصمہ جہانگیر

بدھ 8 مارچ 2017 20:06

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 08 مارچ2017ء) سپریم کورٹ نے طیبہ تشدد کیس کا ٹرائل فوری طور پر روکنے کا حکم جاری کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ طیبہ تشدد کیس کو درمیان میں نہیں چھوڑیں گے ،ْ ازخود نوٹس لیا ہے تو منطقی انجام تک بھی پہنچائیں گے۔سپریم کورٹ میں طیبہ تشدد ازخود نوٹس کیس کی سماعت چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے کی۔

سماجی رہنما عاصمہ جہانگیر نے عدالت سے استدعا کی کہ طیبہ کیس کو کسی دوسرے صوبے یا ہائی کورٹ میں منتقل کیا جائے کیونکہ اس قسم کا کیس ریاست یا متاثرہ فریق ہی دائر کر سکتا ہے لیکن بچی کے والدین با اثر ملزمان کے ڈر اور خوف کے باعث کوئی کارروائی نہیں کرنا چاہتے، ایسی صورتحال میں ہم سب ذمہ دار ہوں گے۔چیف جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے کہ طیبہ تشدد کیس کو درمیان میں نہیں چھوڑیں گے، ازخود نوٹس لیا ہے تو اسے منطقی انجام تک بھی پہنچائیں گے کیونکہ یہ ایک معاشرتی مسئلہ ہے۔

(جاری ہے)

انہوںنے کہاکہ اگر شواہد پیش کرنے والے ہی کارروائی نہ کرنا چاہیں تو ہم کیا کرسکتے ہیں، والدین اورشکایت کنندہ بھی کیس کو آگے لے جانے پر راضی نہیں ،ْ کسی ملزم کو شواہد کے بغیر سزا نہیں دی جا سکتی۔ چیف جسٹس نے کہاکہ ایسی صورت میں ناکامی عدالتوں کی نہیں ہوگی اور نہ ہی ہم سب ذمہ دار ہوں گے۔سپریم کورٹ نے ایڈوکیٹ جنرل اسلام آباد ہائی کورٹ کو طلب کرتے ہوئے کیس کی سماعت 12 بجے تک ملتوی کردی۔

کیس کی دوبارہ سماعت شروع ہوئی تو عاصمہ جہانگیر نے کہاکہ طیبہ تشدد کیس میں ریاست کو ذمہ داری لینی چاہئے بچی کے والد کا ٹرائل کورٹ میں بیان سپریم کورٹ میں دیئے گئے بیان سے مختلف تھا اور یہ بھی مصدقہ اطلاع ہے ٹرائل کورٹ میں چالان بھی پیش نہیں کیا گیا۔ عاصمہ جہانگیر نے بتایا کہ مجھے حکومتی حلقوں کی جانب سے کیس سے الگ ہونے کا کہا جارہا ہے اور اس حوالے سے عدالت کو بیان حلفی بھی دینے کو تیار ہوں۔

عاصمہ جہانگیر نے دوبارہ استدعا کی کہ کسی کو منتقل کرکے اسپیشل پراسیکیوٹر تعینات کیا جائے، جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا قانون میں اس کی گنجائش موجود ہے ٹرائل کورٹ میں کیس سننے والا جوڈیشل افسر بھی ملزم کے عہدے کے برابر ہے اور ہوسکتا ہے کہ ٹرائل کورٹ کا سربراہ ملزم کا رفیق کار بھی ہو۔جسٹس مقبول باقر نے کہا کہ زندگی سب سے بڑا بنیادی حق ہے اور اس کی سب سے بڑی ذمہ دار ریاست ہوتی ہے تاہم کیس کی منتقلی کے لئے ایڈوکیٹ جنرل خود درخواست دینے سے کیوں ہچکچا رہے ہیں۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہمیں قانون کے دائرے میں رہ کر مقصد حاصل کرنا ہے اور انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لئے معاملہ ہائی کورٹ میں بھجوا رہے ہیں۔عدالت نے طیبہ تشدد کیس کا ٹرائل روکنے کا حکم جاری کرتے ہوئے کہا کہ ہائی کورٹ 15 روز میں معاملے کا جائزہ لے کر کیس کی منتقلی سے متعلق واضح حکم جاری کرے۔ چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہاکہ طیبہ کی حوالگی سے متعلق فیصلہ آئندہ سماعت پر کیا جائے گا لیکن ابھی بہتر ہوگا کہ بچی کو ایس او ایس ویلج بھجوا دیا جائے وہاں کوئی بھی اس کی کفالت کرے۔ عدالت نے کیس کی سماعت 21 مارچ تک ملتوی کردی ۔