کراچی (اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔16
ستمبر۔2017ء) موجودہ حکومت کی جانب سے ادائیگیوں کے بحران پر قابو پانے کے
لیے دیرپا اقدامات نہ کرنے پر آنے والی حکومت کے آئی ایم ایف کے پاس دوبارہ
جانے کا خطرہ ظاہر کردیا گیا ہے۔ٹاپ لائن سیکیورٹیز نے اپنی معاشی جائزہ
رپورٹ میں امکان ظاہر کیا ہے کہ رواں مالی سال کرنٹ اکاﺅنٹ خسارہ 16سے
16.5ارب
ڈالر تک پہنچ سکتا ہے جس سے زرمبادلہ کے ذخائر پر مزید دباﺅ پڑے گا
اور سرکاری ذخائر کی مالیت میں 3ارب
ڈالر تک کمی ہوسکتی ہے جس کے نتیجے
میں سرکاری ذخائر سے 3 ماہ کا درآمدی بل ادا کرنے کی گنجائش برقرار نہیں
رہے گی، رواں مالی سال میں درپیش 16سے 16.5ارب
ڈالر کا خسارہ پورا کرنے کے
لیے حکومت کو 10سے 11ارب
ڈالر کی ضرورت ہوگی جو زیادہ تر قرضوں کے ذریعے
پوری کی جائے گی۔
(جاری ہے)
رپورٹ کے مطابق ورلڈ بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینکوں سے
2سے 3ارب
ڈالر کا قرضہ حاصل کیا جائے گا جبکہ
ڈالر یا سکوک سرمایہ کاری
بانڈز کے اجرا سے 1سے 2ارب
ڈالر جبکہ باقی ضرورت کمرشل قرضوں اور دیگر
ذرائع سے پوری کی جائیگی جن میں سی پیک منصوبوں کے لیے چینی اداروں کی مالی
معاونت بھی شامل ہے۔رپورٹ میں امکان ظاہر کیا گیا ہے کہ شاہد خاقان عباسی
معزول وزیر اعظم نواز شریف کی معاشی پالیسی جاری رکھتے ہوئے کرنٹ اکاﺅنٹ
خسارے کے نتیجے میں پیدا ہونے والے ادائیگیوں کے بحران کے حل کے لیے کوئی
ٹھوس قدم نہیں اٹھائیں گے جس کا بوجھ آئندہ انتخابات کے بعد وجود میں آنے
والی نئی حکومت کو اٹھانا پڑے گا،ادائیگیوں کے بحران کے حل کے لیے فوری
دیرپا اقدامات کی ضرورت ہے جن میں روپے کی قدر میں کمی، شرح سود کے ساتھ
غیر ضروری درآمدات پر ڈیوٹی کی شرح میں اضافہ اور برآمدی شعبے کے لیے
مراعات کی فراہمی جیسے اقدامات شامل ہیں۔
رپورٹ کے مطابق اگرچہ روپے کی قدر
میں 10سے 20فیصد کمی کرکے تجارتی خسارے میں 3سے6ارب
ڈالر کی کمی لائی
جاسکتی ہے تاہم سیاسی وجوہ اور 2018 میں عام انتخابات کی وجہ سے موجودہ
حکومت روپے کی قدر میں کمی نہیں کرے گی جس کا نئے وزیر اعظم بھی دوٹوک
انداز میں اعلان کرچکے ہیں۔اسی طرح شرح سود میں اضافے کا بھی کوئی امکان
نہیں ہے کیونکہ ن لیگ کی حکومت شرح سود میں کمی کو ایک کامیابی کے طور پر
پیش کرتی ہے تاہم 2008کے معاشی بحران میں حکومت نے شرح سود میں 450 پوائنٹس
کا اضافہ کرکے شرح سود 15فیصد تک پہنچا دی تھی جس کے نتیجے میں بلند فسکل
اور بیرونی خسارے پر قابوپانے میں مدد ملی تھی۔
ٹاپ لائن نے فوڈ، پٹرولیم،
مشینری کے علاوہ دیگر درآمدی مصنوعات پر ڈیوٹی کی شرح میں اضافے کو قابل
عمل قرار دیا ہے جس کے نتیجے میں 3سے 4ارب
ڈالر کے زرمبادلہ کی بچت کی
جاسکتی ہے کیونکہ فوڈ، پٹرولیم اور مشینری گروپ مجموعی درآمدات کا 50فیصد
ہے۔رپورٹ میں برآمدی شعبے کے لیے وسیع الااثر مراعاتی پیکیج کے اعلان کا
امکان ظاہر کیا گیا، وفاقی حکومت نے جنوری 2017میں 5 بڑے برآمدی شعبوں کے
لیے مراعاتی پیکیج کا اعلان کیا تھا تاہم برآمد کنندگان کے مطابق ریفنڈز کی
عدم ادائیگی کی وجہ سے سرمائے کی قلت برآمدات میں اضافے کی راہ میں رکاوٹ
ہے جسے دور کرنے کے لیے اضافی سبسڈی کی ضرورت ہے تاکہ توانائی کی بڑھتی
ہوئی لاگت کا اثر زائل کیا جاسکے۔
رپورٹ کے مطابق وفاقی حکومت اضافی
کماڈیٹیز کی ایکسپورٹ کی اجازت دینے کے ساتھ برآمدات کے لیے معاون موثر اور
وسیع الاثر برآمدی پیکیج پر غور کررہی ہے جس کی وزارت تجارت تیاریوں میں
بھی مصروف ہے۔رپورٹ کے مطابق چین کے ساتھ پاکستان کا تجارتی خسارہ بھی باعث
تشویش ہے جس پرقابو پانے کے لیے چین کے ساتھ آزاد تجارت کے معاہدے پر جلد
ہی نظر ثانی کی جائیگی، چین کے ساتھ تجارت میں پاکستان کو 5ارب
ڈالر خسارے
کا سامنا ہے۔
رپورٹ کے مطابق محدود ٹیکس وصولیاں اور جی ڈی پی کے مقابلے میں
ٹیکسوں کا پست تناسب پاکستان کی معیشت کا بڑا مسئلہ ہے، ٹیکس ٹو جی ڈی پی
ریشو کی موجودہ سطح 10سے 11فیصد ہے جو خطے کی پس ترین سطح ہے، اس تناسب کو
14سے 15فیصد تک بڑھانا ضروری ہے تاہم اس کے لیے ایندھن اور گاڑیوں پر اضافی
ٹیکس جیسے اقدامات کرنا ہوں گے جس سے ایک جانب کھپت میں کمی ہوگی، ساتھ ہی
درآمدی بل بھی کم کیا جاسکے گا اور حکومت کے ریونیو میں بھی اضافہ ہوگا
تاہم اس اقدام سے افراط زر میں اضافہ کا خدشہ ہے جو ن لیگ کی حکومت کے لیے
آئندہ انتخابات سے قبل کسی صورت موزوں نہیں ہوسکتا۔