حملے کی صورت میں جنوبی کوریا کے ساتھ کھڑے ہونگے ،امریکہ

امریکہ جزیر ہ نما کوریا میں کشیدگی کو کم کرنے اور پیانگ یانگ کے جوہری اور میزائل خطر ے سے نمٹنے کیلئے کام کرنے والے سفارت کاروں کو فوجی(طاقت) کے استعمال کا متبادل فراہم کرنے کے عزم پر سختی سے کار بند رہے گا،وزیر دفاع جم میٹس کیصحافیوں سے گفتگو

ہفتہ 27 جنوری 2018 16:00

واشنگٹن(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 27 جنوری2018ء) امریکہ کے وزیر دفاع جم میٹس نے کہا ہے کہ امریکہ جزیر ہ نما کوریا میں کشیدگی کو کم کرنے اور پیانگ یانگ کے جوہری اور میزائل خطر ے سے نمٹنیکیلئے کام کرنے والے سفارت کاروں کو فوجی(طاقت) کے استعمال کا متبادل فراہم کرنے کے عزم پر سختی سے کار بند رہے گا۔غیر ملکی میڈیا کے مطابق پرل ہاربر پہنچنے سے پہلے طیارے میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے میٹس نے کہا کہ اگر شمالی کوریا نے حملہ کیا تو امریکہ جنوبی کوریا کے ساتھ مل کر شانہ بشانہ لڑنے پر تیار ہے۔

وزیر دفاع نے ویت نام سے ہوائی آتے ہوئے صحافیوں کو بتایا کہ یہ فوجی طاقت استعمال کرنے کا متبادل 1953 سے موجود ہے۔ یہ آج بھی موجود ہے۔ اگر ان پر حملہ ہوتا ہے تو ہم جنوبی کوریا کے شانہ بشانہ لڑنے پر تیار ہیں۔

(جاری ہے)

میٹس نے مزید کہا کہ شمالی کوریا کے کسی بھی حملے کو سختی سے روک دیا جائے گا۔شمالی کوریا اور جنوبی کوریا آئندہ ماہ جنوبی کوریا میں ہونے والے سرمائی اولمپکس کے معاملے پر بات چیت بھی کر رہے ہیں۔

بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ شمالی کوریا ان مذاکرات کو امریکہ اور جنوبی کوریا کے درمیان کوئی دوری پیدا کرنے کی کوشش کے طور پر استعمال کر سکتا ہے۔تاہم میٹس نے کہا کہ جنوبی کوریا کے عہدیداروں نے اس بات چیت کو اولمپکس کے معاملات تھا محدود رکھنے کا وعدہ کیا ہے۔انہوں نے ان مذاکرات کو ایک مثبت اشارہ قرار دیا لیکن انہوں نے اس بار ے میں بھی سوال اٹھایا کہ یہ بات چیت کس حد تک کسی پیش رفت کے لیے معاون ہو سکتی ہے۔

واضح رہے کہ جنوبی کوریا اور شمالی کوریا 1950 کی دہائی سے تکنیکی طور پر حالت جنگ میں ہیں۔ دونوں ملکوں کے درمیان 1953 میں کوریائی جنگ بندی کا سمجھوتہ طے پایا تھا۔گزشتہ سال ستمبر میں پیانگ یانگ کی طرف سے چھٹا اور سب سے بڑا جوہری تجربہ کرنے کے بعد دونوں کوریائی ممالک کے درمیان کشیدگی میں بہت زیادہ اضافہ ہوا۔

متعلقہ عنوان :