ابو ظہبی:امارات میں آٹھ ہزار سال پُرانا گاؤں دریافت ہو گیا

گاؤں کو امارات کے دریافت شدہ آثارِ قدیمہ میں سب سے پُرانا قرار دیا جا رہا ہے

Muhammad Irfan محمد عرفان بدھ 27 جون 2018 16:44

ابو ظہبی:امارات میں آٹھ ہزار سال پُرانا گاؤں دریافت ہو گیا
ابو ظہبی( اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔27جُون 2018ء) ماہرینِ آثار قدیمہ نے ابوظہبی میں کھُدائی کے دوران متحدہ عرب امارات کی معلوم تاریخ کا قدیم ترین گاؤں دریافت کر لیا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ گاؤں آٹھ ہزار سال قدیم ہے اور اس کا تعلق نوحجری دور سے ہے۔ ابو ظہبی کے ڈیپارٹمنٹ آف کلچر اینڈ ٹووراِزم کی جانب سے مراواہ کے جزیرے پر کھُدائی کے دوران اس گاؤں کے آثار ظاہر ہوئے۔

ڈیپارٹمنٹ کے ترجمان کے مطابق کھُدائی کے دوران دریافت ہونے والے گھر ٹھیک حالت میں ہیں اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ یہ کئی سو سال تک زیر استعمال رہے۔ ان گھروں میں کئی کمرے ہیں اس کے علاوہ کھانا پکانا اور جانوروں کو رکھنے کے لیے صحن یا بیرونی احاطہ بھی موجود ہے۔ اس گاؤں میں مجموعی طور پر دس کے قریب گھر ہیں‘ جن کا ڈیزائن اور طرزِ تعمیر حیرت انگیز حد تک مماثل ہے۔

(جاری ہے)

ماہرین آثارِ قدیمہ اس گاؤں کو کمپیوٹرائزڈ طریقے سے تشکیل دے رہے ہیں تاکہ یہ سمجھ سکیں کہ آٹھ ہزار سال پہلے یہ کس حالت میں ہو گا۔ ماہرین کے مطابق اس دور کی کئی اشیاء تو وقتاً فوقتاً کھُدائیوں کے دریافت ہوئی تھیں‘ مگرکسی عمارت کی دریافت پہلی بار ہوئی ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ محققین کی جانب سے یہ خیال ظاہر کیا جاتا ہے کہ قدیم حجری دور میں امارات کے باشندے خانہ بدوش تھے جو ایک جگہ سے دُوسری جگہ پھر کر اپنی بھیڑیں اور بکریاں چرایا کرتے تھے۔

مگر مراواہ کی دریافت کچھ اور ہی کہانی بیان کر رہی ہے۔ اس جزیرے میں لوگوں نے مستقل سکونت اختیار کر رکھی تھی اور رہائش کی غرض سے مکان بھی تعمیر کیے تھے۔ جس سے اس بات کا اظہار ہوتا ہے کہ یہاں ان کو روزگار اور رزق کے وافر وسیلے میسر تھے تبھی انہوں نے اس جگہ کی سکونت ترک نہیں کی۔ ڈیپارٹمنٹ کے چیئرمین محمد خلیفہ المبارک کے مطابق ماہرین کی ٹیم اس جگہ کھُدائی کا سلسلہ جاری رکھ کر مزید انکشافات کی تلاش میں ہے۔

ان ماہرین کی کوششوں کے باعث ہی امارات کی قدیم تاریخ تک رسائی میں مدد مل رہی ہے۔ جوں جوں مزید آثار سامنے آئیں گے تُوں تُوں ہم اپنے آباء و اجداد اور اس دھرتی کے بارے میں مزید جاننے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ مراواہ کے رہائشی رزق اور روزگار کے لیے زراعت کی بجائے قریب موجود سمندری مخلوقات کا شکار کر کے گزر بسر کرتے تھے۔

قدیم باشندوں کو احسا س ہو گیا تھا کہ امارات کی صحرائی دھرتی پر خوراک کے وسیلوں کی کمیابی کے باعث یہاں کا سمندر ہی اُن کا پیٹ بھرنے اور روزگار کمانے کااہم منبع تھا۔ تبھی وہ یہاں ٹِک گئے۔ اس کے علاوہ رفتہ رفتہ کشتی سازی کے ہُنر سے آگاہ ہو کر وہ سمندر پار لوگوں سے بھی رابطے میں آ گئے۔ یوں ان کے درمیان آپس میں تجارت کا آغاز ہوا ہو گا۔ یہاں سے دریافت شدہ چینی کے برتن سے پتا چلتا ہے کہ اس گاؤں کے رہائشی دُوسرے خطوں سے مختلف اشیاء بھی منگواتے تھے۔ یہ گاؤں منظم اور سماجی زندگی کی جانب گامزن ہونے کی ابتدائی منزل کا عکاس ہے۔