لال مسجد از خود نوٹس کیس کی سماعت

سپریم کورٹ نے چیئرمین سی ڈی اے سے تفصیلی رپورٹ طلب کرلی جامعہ حفصہ کو الاٹ کی گئی 20 کنال اراضی کی تفصیلات سے آگاہ کیا جائے،عدالت آئی جی اسلام آباد سے گمشدہ بچوں کے بارے میں تفصیلی رپورٹ بھی طلب

منگل 12 مارچ 2019 20:47

لال مسجد از خود نوٹس کیس کی سماعت
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 12 مارچ2019ء) سپریم کورٹ نے لال مسجد از خود نوٹس کیس میں چیئرمین سی ڈی اے سے تفصیلی رپورٹ طلب لی۔عدالت نے حکم دیا کہ جامعہ حفصہ کو الاٹ کی گئی 20 کنال اراضی کی تفصیلات سے آگاہ کیا جائے۔سماعت کے دوران دو عمر رسیدہ بزرگوں کی عدالت میں دہائی پر ایکشن لیتے ہوئے آئی جی اسلام آباد سے گمشدہ بچوں کے بارے میں تفصیلی رپورٹ بھی طلب کر لی۔

سپریم کورٹ میں لال مسجد از خود نوٹس کیس کی سماعت جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے کی۔ سی ڈی اے وکیل کی بغیر تیاری اور تاخیر سے آمد پر عدالت نے برہمی کا اظہار کیا۔جسٹس گلزار احمد نے یریمارکس میں کہا کہ لال مسجد کتنے رقبے پر قائم ہوئی اور زمین کس کی ملکیت ہی ڈپٹی اٹارنی جنرل نے بتایا کہ لال مسجد سرکاری زمین پر قائم ہے،چیف کمشنر اسلام آباد اور قائم مقام چیئرمین سی ڈی اے عامر علی احمد عدالت میں پیش ہوئے۔

(جاری ہے)

جسٹس گلزار احمد نے استفسار کیا کہ چیئرمین صاحب بتائیں مسجد کب بنی،رقبہ کتنا ہے اور اسے کون چلا رہا ہے،چیئرمین سی ڈی اے نے بتایا کہ1970 میں سی ڈی اے نے 9 ہزار 533 گز زمین الاٹ کی,1988 میں مدرسہ جامعہ حفظہ کیلئے 206 گز زمین دی گئی۔جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہامسجد تعمیر کس نے کی تھی۔چیئرمین سی ڈی اے نے بتایامسجد سی ڈی اے نے تعمیر کی تھی۔جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ موذن کو کس نے بھرتی کیا جس پر چئیرمین سی ڈی اے نے بتایامولانا عبداللہ کوموذن متروکہ وقف املاک نے تعینات کیا۔

مولانا عبداللہ کے بعد انکے بیٹے مولانا عبدالعزیز کو موذن مقرر کیا گیا۔جسٹس گلزار احمد نے کہا اس کا مطلب ہے مولانا عبدالعزیز سرکاری ملازم تھے۔ چیئرمین سی ڈی اے نے کہا کہ مولانا عبدالعزیز کو 2004 میں عہدے سے ہٹا دیا گیا۔مولانا عبدالعزیز کے ہٹائے جانے کے باوجود مسجد کا کنٹرول اپنے پاس رکھا۔جسٹس گلزار احمد نے استفسار کیا کہ کیا یہ مسجد مولانا کی ذاتی جائیداد ہوگئی تھی۔

جسٹس اعجاز الحسن نے کہا کہ آپ کیا کہنا چاہتے ہیں کہ وفاقی دارلحکومت میں قائم ایک مسجد کو حکومت خالی نہ کرا سکی۔چیئرمین سی ڈی اے نے عدالت کوبتایا کہ2007 کے آپریشن کے دوران جامعہ حفصہ کی عمارت تباہ ہوگئی تھی۔ سپریم کورٹ کی ہدایات کے مطابق 2011 میں اسلام آباد کے سیکٹر ایچ الیون میں 20 کنال اراضی جامعہ حفصہ کو دی گئی۔ جسٹس گلزار احمد نے کہاآپ کا کیا مطلب ہے سی ڈی اے نے سرکاری اراضی نجی ادارے کے نام کر دی۔

عدالت نے آپکو عمارت تعمیر کرنے کا کہا تھا کسی کو دینے کا نہیں کہا یہ آپ کیا کرتے رہے ہیں۔ جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ یہ تو سی ڈی اے کی پراپرٹی تھی کسی اور کو کیسے دے سکتے ہیں۔ جسٹس اعجازالاحسن نے کہاجامعہ حفصہ کی قانونی حیثیت کیا ہے۔جسٹس قاضی فائز عیسی نے استفسار کیاچئیرمین صاحب بے شک عارضی طور پر وہ جگہ استعمال کر سکتے ہیں مگر جائیداد آپکی رہے گی۔

جیسے سپریم کورٹ کی مالک ریاست ہے اور ہم یہاں مکین ہیں۔جسٹس گلزار احمدنے کہاسرکاری اراضی پر کسی نجی ادارے کو چلانے کی اجازت نہیں۔ نجی ادارے چلانے ہیں تو جگہ خرید کر چلائیں۔عدالت نیچیئرمین سی ڈی اے سے چار ہفتوں میں تفصیلی رپورٹ طلب کرتے ہوئے حکم دیا کہ جامعہ حفصہ کو الاٹ کی گئی 20 کنال اراضی کی تفصیلات سے آگاہ کیا جائی, کیس کی سماعت کے دوران دو عمر رسیدہ بزرگوں کی عدالت میں آنسووں کے ساتھ دہائی۔

بزرگ شہریوں کا کہنا تھا کہ ہمیں عمارت اور زمین نہیں چاہییے اپنے بچے چاہئیں ، ہمارے بچے 2007 سے لا پتہ ہیں،ہمارے بچے کسی قید میں ہیں انہیں رہاکیا جائے ،ہمارے بچوں سے ہماری ملاقات کروائی جائے۔بزرگ شہری کا کہنا تھاکہ یہاں انڈین جاسوس سے ان کے اہلخانہ کی ملاقات کروائی جاتی ہے مگر ہمارے بچوں سے ہماری ملاقات نہیں ہوتی،عدالت نے بزرگوں کی فریاد پرایکشن لیتے ہوئے آئی جی اسلام آباد سے چار ہفتوں میں کمشدہ بچوں کے بارے میں عدالت کو تفصیلی رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیتے ہوئے کیس کی سماعت چار ہفتوں کے لیے ملتوی کر دی ہے …توصیف