کرائسٹ چرچ سانحہ کے بعد تارکین وطن اب بھی خوف وہراس کا شکار

مساجد میں نمازیوں کی کم تعداد،مارکیٹ میں بھی تارکین وطن کی تعداد پہلے کے مقابلے میں نہ ہونے کے برابر

پیر 18 مارچ 2019 16:21

کرائسٹ چرچ سانحہ کے بعد تارکین وطن اب بھی خوف وہراس کا شکار
کرائسٹ چرچ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 18 مارچ2019ء) نیوزی لینڈ کے میڈیا نے کہاہے کہ کرائسٹ چرچ سانحہ کے بعد اب بھی تارکین وطن خوف وہراس کا شکار ہیں،مساجد میں نمازیوں کی تعدادانتہائی کم اورمارکیٹ میں آنے کے حوالے سے بھی تارکین وطن احتیاط سے کام لے رہے ہیں،کیوی میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے نصیرالدین نے کہا کہ وہ بہت افسردہ ہیں۔

37 سالہ نصیرالدین کا تعلق بنگلہ دیش سے ہے۔ وہ پانچ سال پہلے بنگلہ دیش سے نیوزی لینڈ کے مشرقی ساحلی علاقے کے دلفریب شہر ساتھ آئی لینڈ میں منتقل ہوئے۔نصیرالدین باقاعدگی سے مسجد جاتے ہیں اور اگر جمعہ کے روز وہ کام پر نہ ہوتے تو وہ بھی حملے کے وقت مسجد میں موجود ہوتے۔ حملے کا سن کر انھوں نے بہت سے لوگوں کو فون کیا لیکن کسی نے ان کا فون نہیں اٹھایا۔

(جاری ہے)

ان کے دو دوست اس حملے میں ہلاک ہوئے۔نیوزی لینڈ کی اسلامک ویمن کونسل کی انجم رحمان نے کہاکہ النور مسجد ہمیشہ سے ہی سب کو بہت عزیزتھی۔ جب یہ تعمیر ہوئی تو یہ دنیا کی سب سے جنوبی مسجد تھی۔متنوع مسلم برادری کے بارے میں انہوں نے کہاکہ میرا خیال ہے کہ نیوزی لینڈ دنیا میں سب سے بہترین مثال ہے جہاں یہ کامیابی سے کیا گیا ہے۔ یہ غلطی سے نہیں ہوا۔ اس پر ہم سب نے اور ہمارے آبا اجداد نے کام کیا ہے۔53سالہ الینور مورگن کے لیے کرائسٹ چرچ کے دل ہیگلی پارک میں ایسا واقعہ معمول کے برعکس بہت ہولناک بات ہے۔انہوں نے کہاکہ یہ جگہ ان کی پناہ گاہ ہونی چاہیے تھی، ان کا محفوظ مقام۔ ہم امید کرتے ہیں کہ ہم انھیں محبت دکھانے کا کوئی طریقہ ڈھونڈ سکیں۔