لوک ورثہ کے زیر اہتمام ’’بلوچستان کا ثقافتی جائزہ‘‘ کے عنوان سے مذاکرے کا انعقاد

جمعہ 20 ستمبر 2019 18:21

اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 20 ستمبر2019ء) لوک ورثہ کے زیر اہتمام ’’بلوچستان کا ثقافتی جائزہ‘‘ کے عنوان سے ایک مذاکرے کا انعقاد کیا گیا جس کے مہمان خصوصی مشہور شاعر، مصنف، محقق اور کالم نگار جناب نور خان محمد حسنی صاحب تھے جو حال ہی میں ڈی جی پی آر بلوچستان کے عہدہ سے ریٹائرہوئے ہیں۔ مذاکرے کی میزبان اور سٹیج سیکرٹری لوک ورثہ کی ڈپٹی ڈائریکٹر (ریسرچ اینڈ میڈیاسینٹر) ڈاکٹر ضوبیہ سُلطانہ تھیں۔

مذاکرے کا آغاز تلاوت کلام پاک سے کیا گیا جس کے بعد میزبان نے مذاکرے کے اسپیکر اور موضوع کے حوالہ سے مختصر تعارف کرایا۔اس مذاکرے کے سپیکر نور خان محمد حسنی صاحب نے دو عدد سفرنامے بھی تحریر کئے ہیں جن میں ایک خود نوشت اور ایک تحقیقی کتاب بلوچستان کا ثقافتی تناظرشامل ہے۔

(جاری ہے)

اس کے علاوہ انہوں نے بلوچستان کی تاریخ اور ثقافت پر قومی اور مقامی روزناموں میں سینکڑوں مضامین بھی لکھے ہیں۔

نور خان محمد حسنی صاحب نے ملٹی میڈیا پروجیکٹر کے ذریعہ مذاکرے کے موضوع ’’بلوچستان کا ثقافتی جائزہ‘‘ کے متعلق بتاتے ہوئے کہا کہ میں لوک ورثہ کا بہت مشکور ہوں جنہوں نے مجھے آج یہاں اپنے کلچر پر بات کرنے کا موقع دیا۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان کا صوبہ جس طرح رقبے کے اعتبار سے بڑا صوبہ ہے اسی طرح ثقافتی لحاظ سے بھی بڑا قدیم اور منفرد ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ بلوچستان کی ثقافت کے تمام رنگوں سے نہ صرف خوبصورتی واضح طور پر جھلکتی ہے بلکہ ان رنگوں سے پیار و محبت، بھائی چارہ، ایثار و قربانی اور اعلیٰ روایات کی بھی خوشبو آتی ہے۔ نور خان محمد حسنی صاحب نے بلوچستان کے ٹھوس اور ناقابل تسخیر ثقافتی ورثہ کے تمام پہلوئوں خاص طور پربلوچستان کے قدیم قبائل اور اُن کے قبائلی سسٹم رسم و رواج اور تہذیب و ثقافت پر تفصیل سے روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ قدیم انسانی تہذیب مہرگڑھ کے نو ہزار سال قدیم رہن سہن کے آثار بلوچستان میںہی دریافت ہوئے۔

انہوں نے کہا کہ بلوچ تہذیب میں لڑائی کے دوران اگر دشمن گرجائے تو اُس پر وار نہیں کرتے اسی طرح عورتوں اور بچوں کے ساتھ لڑائی نہیں کرتے اگر کسی جھگڑے میں مخالف خواتین معافی مانگنے آجائیں تو انہیں دوسرا فریق معاف کردیتاہے۔ اسی طرح اگرکوئی شخص دوسرے شخص کو دیکھ کر تھوکتا ہے تو اسے نفرت کے تناظر میں سمجھا جاتا ہے۔ اسی طرح ایک روایت ہے کہ اگرکوئی چوری کرتا ہے یا کوئی اور سنگین جرم جسے ماننے سے انکاری ہوتا ہے تو اُس کی بے گناہی ثابت کرنے کیلئے اُسے دہکتے انگاروں پر چلایا جاتا ہے یا پھر گہرے پانی میں ڈُبکی لگانے کو کہا جاتا ہے۔

اگر وہ کامیاب ہوتا ہے تو بے گناہ قرار پائے گا ورنہ سزا کا حقدار ٹھہرے گا۔ اسی طرح بلو چ قبیلے میں وعدے اور عہد کی سختی سے پابندی کی جاتی ہے۔ علاوہ ازیں بلوچ قبائل کی ثقافت میں اقلیتوں کا خاص خیال رکھا جاتا ہے اور اُن کوہر طرح کا تحفظ دیا جاتا ہے۔ بلوچ قبائل میں برداشت اور بہادری کا عنصر نمایاں ہوتا ہے اور بہادری کو برداشت کے معنی میں سمجھا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ بلوچوں میں لباس، پکوان، ضرب الامثال، قصے کہانیاں، موسیقی اور ڈانس وغیرہ کی تاریخ بھی بڑی قدیم اور منفرد ہے۔ آخر میں شرکاء کی جانب سے بلوچستان کی ثقافت کے حوالے سے پوچھے جانے والے سوالوں کے جوابات بھی دیئے گئے۔