سائنسدانوں کا مردوں کو باپ بننے سے روکنے والا انجکشن تیار کرنے کا دعویٰ

13 سال تک کے لیے باپ بننے سے روکنے والے انجکشن کو وقت سے قبل تحلیل بھی کیاجاسکتاہے،بھارتی ڈاکٹر

منگل 3 دسمبر 2019 13:12

سائنسدانوں کا مردوں کو باپ بننے سے روکنے والا انجکشن تیار کرنے کا دعویٰ
نئی دہلی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 03 دسمبر2019ء) انڈین محققین نے حال ہی میں دعویٰ کیا ہے کہ انھوں نے دنیا کا پہلا مردوں کے لیے بنایا گیا مانع حمل انجیکشن تیار کر لیا ہے جو مردوں کو باپ بننے سے روک سکے گا۔بھارتی ٹی وی کے مطابق اس انجکشن کو انڈین کونسل آف میڈیکل ریسرچ (آئی سی ایم آر) نے تیار کیا ہے۔ آئی سی ایم آر میں تحقیق کرنے والے ڈاکٹر آر ایس شرمانے کہا کہ یہ انجیکشن صرف ایک بار دیا جائے گا اور وہ 13 سال تک مانع حمل کا کام کرے گا۔

سائنس دان ڈاکٹر آر ایس شرما کا کہنا تھا کہ اس انجکشن کے لیے پانچ ریاستوں دہلی، ہماچل پردیش، جموں، پنجاب اور راجستھان میں لوگوں پر کلینیکل ٹرائلز (طبی تجربی) کیے گئے اور اس کے لیے ایسے مردوں کو منتخب کیا گیا تھا جن کے پہلے سے دو بچے تھے۔

(جاری ہے)

ڈاکٹر شرما نے بتایا کہ اس کے لیے انھوں نے اپنے مختلف مرد فیملی پلاننگ مراکز میں نسبندی کی خواہش لے کر آنے والے 300 سے زیادہ ایسے افراد کو منتخب کیا جو صحت مند ہوں، باپ بننے کے لائق ہوں، ان کی اہلیہ بھی صحت مند ہوں کیونکہ یہ یکطرفہ عمل نہیں ہے۔

ہم جو ٹیسٹ مردوں کے لیے کرتے تھے وہی سارے ٹیسٹ ان کی پارٹنر میں بھی کرتے تھے۔انھوں نے بتایا کہ 700 سے زیادہ افراد سے اس میں شرکت کے لیے رجوع کیا گیا یکن ان کے پیمانے پر صرف 315 افراد اترے جنھوں نے رضاکارانہ طور پر اس میں شرکت کی حامی بھری۔ڈاکٹر شرما نے یہ انکشاف بھی کیا کہ آئی سی ایم آر سنہ 1984 سے ہی اس انجکشن پر کام کر رہا تھا اس میں استعمال ہونے والے پولیمر کی نشوونما آئی آئی ٹی کے پروفیسر ایس کے گوہا نے کی تھی۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ یہ کیسے کام کرتا ہے تو انھوں نے کمپیوٹر پر گرافکس کی مدد سے دکھایا کہ مردوں کے سکروٹم کے واس کو نکال کر ٹیسٹیکل ٹیوب کے اندر پروفیسر گوہا کے تیار کردہ پولیمر کو سوئی کے ذریعے داخل کیا جاتا ہے۔انھوں نے یہ بھی وضاحت کی کہ چونکہ یہ پولیمر بایو ایکٹو ہے اس لیے جب مادہ منویہ اخراج کے لیے نکلتا ہے تو یہ سرگرم ہو جاتا ہے اور اسے ختم کرنے لگتا ہے یہاں تک اس پولیمر سے گزر کر جب مادہ منویہ باہر آتا ہے تو وہ مکمل طور پر تباہ ہو چکا ہوتا ہے، ان میں کوئی قوت نہیں رہ جاتی اور وہ ایک طرح سے مردہ مواد ہوتے ہیں۔

انھوں نے مزید بتایا کہ ویسیکٹومی یا نسبندی میں ٹیسٹیکل ٹیوب کا ایک حصہ کاٹ کر ہٹا دیا جاتا ہے جبکہ اس طریق? علاج میں انجیکشن دیا جاتا ہے اور وہاں پولیمر کام کرنے لگتا ہے۔ڈاکٹر آر ایس شرما نے بتایا کہ اس کے لیے ہم نے جہاں انجیکشن دیا ہوتا ہے وہاں اس پولیمر کو تحلیل کرنے والی دوا سوئی سے ڈال دیتے ہیں جس سے پولیمر حل ہو کر باہر نکل آتا ہے اور پھر مادہ منویہ کے لیے وہاں سے رکاوٹ صاف ہو جاتی ہے اور اس طرح کوئی پھر سے باپ بن سکتا ہے۔