سنگل بینچ کا فیصلہ معطل، صدر نیشنل بینک عارف عثمانی عہدے پر بحال

اسلام آباد ہائیکورٹ نے صدر نیشنل بینک کو عہدے سے ہٹانے کا سنگل بینچ کا فیصلہ معطل کیا، انٹرا کورٹ اپیل پر فیصلے تک سنگل بینچ کا فیصلہ معطل رہے گا، عدالت کی جانب سے چیئرمین نیشنل بینک زیبر سومرو کو بھی بحال کر دیا گیا

Sajid Ali ساجد علی جمعرات 8 جولائی 2021 14:36

اسلام آباد ( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین ۔ 08 جولائی 2021ء ) اسلام آباد ہائی کورٹ نے صدر نیشنل بینک عارف عثمانی کو عہدے پر بحال کردیا۔ تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائیکورٹ میں صدر نیشنل بینک عارف عثمانی اور چیئرمین زیبر سومرو کو عہدوں سے ہٹانے کے خلاف انٹر اکورٹ اپیل پر سماعت ہوئی ، جہاں عدالت نے صدر نیشنل بینک کو عہدے سے ہٹانے کا سنگل بینچ کا فیصلہ معطل کر دیا، اسلام آباد ہائیکورٹ کی جانب سے صدر نیشنل بینک عارف عثمانی اور چیئرمین زیبر سومرو کو عہدوں پر بحال کر دیا گیا جب کہ انٹرا کورٹ اپیل پر فیصلے تک سنگل بینچ کا فیصلہ معطل رہے گا۔

خیال رہے کہ اس سے پہلے اسلام آباد ہائی کورٹ نے صدر نیشنل بینک عارف عثمانی کو فوری طور پر عہدے سے ہٹانے کا حکم دیاتھا ، جسٹس محسن اختر کیانی پر مشتمل سنگل بینچ نے پہلے سے محفوظ فیصلہ سنایا ، کیوں کہ عدالت میں عارف عثمانی کی بطور صدر نیشنل بینک تعیناتی کے 12جنوری 2019 کے نوٹی فکیشن کو چیلنج کیا گیا ، جس میں پٹشنرنے کہا کہ عارف عثمانی کی تعیناتی شفافیت کے تقاضوں کے مطابق نہیں ہوئی، عارف عثمانی کی تعیناتی رولز اور ایس ای سی پی قوانین کی خلاف ورزی ہے کیوں کہ رولز کے مطابق اس پوسٹ پر تعینات ہونے والے کیلئے فٹ اور پراپر ٹیسٹ پاس کرنا ضروری ہے ، مذکورہ درخواست پر اسلام آباد ہائیکورٹ نے چیئرمین بورڈ زبیر سومرو اور صدر نیشنل بینک عارف عثمانی کے خلاف درخواستوں پر فریقین کو سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کرلیا۔

(جاری ہے)

قبل ازیں اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس محسن کیانی نے چیئرمین بورڈ زبیر سومرو اور صدر نیشنل بینک عارف عثمانی کے خلاف درخواستو ں پر سماعت کی، جس دوران عدالتی حکم پر سٹیٹ بینک کے افسران پیش ہوئے جب کہ ان کے علاوہ درخواست گزار سید جہانگیر، جاوید اقبال ، فضل رحیم اور لطیف قریشی کی طرف سے آفتاب عالم یاسر ایڈووکیٹ سید وقار نقوی ایڈووکیٹ، شاہد کمال خان ایڈووکیٹ اور ڈاکٹر جی ایم چودھری ایڈووکیٹ بھی پیش ہوئے۔

سٹیٹ بینک نے پینل کی لسٹ پیش کی اور استدعا کی کہ بینک نیشنلائزیشن ایکٹ کے مطابق صدر اور چیئرمین اسی لسٹ کے مطابق تعینات ہوئے ، قانون کے مطابق یہ مکمل اور صحیح طریقہ ہے ، اس پر فریقین کی طرف سے وقار نقوی ایڈووکیٹ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ اگر یہ صرف اس پینل کے مطابق نوٹیفکیشن جاری کر دیتے تو ہمارے استدلال مختلف ہوتے انہوں نے اشتہار اور کیبنٹ سے منظوری کا طریقہ خود اختیار کیا جس میں فاش غلطیاں کی گئیں ، اب یہ لوگ اس دلیل کے پیچھے نہیں چھپ سکتے اور قانونی طور پر اس پر واپس نہیں جا سکتے۔

عدالت نے وقار نقوی کی دلیل سے اتفاق کرتے ہوئے سٹیٹ بینک سے استفسار کیا کہ اگر پینل میں لوگ موجود تھے تو اشتہار دینے کی کیا ضرورت تھی؟ اور اشتہار میں اس پینل کا ذکر کیوں نہیں کیا؟ عدالت نے پوچھا کہ اس پینل لسٹ میں اور کتنے ایسے افراد تھے جن کے پاس فنانس سے متعلقہ ڈگری نہیں تھی؟ کیا صرف عثمانی صاحب کو نوازا گیا؟ لیکن سٹیٹ بینک کے پاس ان سوالات کا جواب نہیں تھا ، جس پر عدالت نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے حکم جاری کیا کہ دو دن کے اندر عدالت میں تعلیمی قابلیت پر مشتمل مکمل فہرست سربمہر لفافے میں جمع کروائی جائے ، بعد ازاں عدالت نے کیس کی سماعت مکمل کرتے ہوئے فیصلہ محفوظ کرلیا۔