جرمنی: نازی دور کے اسقاطِ حمل قانون کو ختم کرنے کی تجویز

DW ڈی ڈبلیو منگل 18 جنوری 2022 11:40

جرمنی: نازی دور کے اسقاطِ حمل قانون کو ختم کرنے کی تجویز

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 18 جنوری 2022ء) جرمنی کی وزارت انصاف نے 17 جنوری پیر کے روز ڈاکٹروں پر اسقاط حمل کے طریقہ کار سے متعلق معلومات فراہم کرنے کی جو پابندیاں عائد ہیں، اسے ختم کرنے کے لیے ایک مسودہ قانون کی تجویز پیش کی۔

جرمنی میں تکنیکی طور پر اسقاط حمل غیر قانونی ہے، تاہم اگر مریض اس سلسلے میں صلاح و مشورہ کے کسی سیشن میں شریک ہو تو پہلی سہ ماہی میں اسقاط حمل کا استثنیٰ حاصل ہے۔

اور یہ مفت بھی ہے۔

لیکن سن 1933 کے نازی دور کا ایک قانون ڈاکٹروں کو اسقاط حمل کے طریقہ کار کے بارے میں معلومات فراہم کرنے سے منع کرتا ہے۔ اسقاط حمل تک رسائی کو مزید مشکل بنانے والے اس قانون پر کافی تنقید ہوتی رہی ہے۔

جرمن وزیر انصاف مارکو بوشمین نے پیر کو کہا، ''ڈاکٹروں کو بھی اس قابل ہونا چاہیے کہ وہ اپنے خلاف مجرمانہ مقدمات کی چارہ جوئی کے خطرے کے بغیر عوام کو اسقاط حمل کے بارے میں آگاہ کر سکیں۔

(جاری ہے)

''

جرمنی میں اسقاطِ حمل کیسے ہوتا ہے؟

موجودہ قانون کے تحت ڈاکٹروں کو اس بات کی اجازت تو ہے کہ وہ مریضوں کو مطلع کر سکیں کہ وہ اسقاط حمل کی خدمات بھی فراہم کرتے ہیں، تاہم وہ اس سے متعلق مختلف طریقہ کار کے بارے میں کوئی معلومات پیش نہیں کر سکتے۔

نیا مجوزہ قانون اس رکاوٹ کو ختم کر دے گا اور پھر ڈاکٹر اسقاط حمل کے طریقہ کار کے بارے میں بھی اپنے مریض کو آگاہ کر سکیں گے۔

سن 2019 میں پہلی بار ڈاکٹروں کو ایسے اشتہار دینے کی بھی اجازت دی گئی تھی کہ وہ ایسی طبی خدمات بھی فراہم کرتے ہیں ورنہ اس سے قبل تک انہیں اس کی بھی اجازت نہیں تھی۔

موجودہ حکومت میں شامل جماعتوں نے نومبر میں اتحاد کے لیے مذاکرات کے دوران ہی اس طرح کی اصلاحات کی تجویز پیش کرنے کا منصوبہ تیار کیا تھا۔ مخلوط حکومت میں شامل سوشل ڈیموکریٹس (ایس پی ڈی) گرین پارٹی اور فری ڈیموکریٹس، سبھی نے اس پر اتفاق کیا ہے، اس لیے پارلیمان میں اس بل کی منظوری بھی آسان معلوم ہوتی ہے۔

ان اصلاحات کے پیچھے وجوہات کیا ہیں؟

اس سلسلے میں مسودہ قانون کے لیے جو وجوہات پیش کی گئی ہیں اس میں کہا گیا ہے کہ اہم خدمات فراہم کرنے والے طبی پیشہ ور افراد کو قانونی طور پر ایک غیر یقینی صورتحال کا خوف لاحق رہتا ہے۔ مسودے میں یہ بھی وضاحت کی گئی کہ اسقاط حمل کے طریقہ کار تک جو آسان رسائی ہے وہ بھی ملک بھر میں یکساں ہونے کے بجائے مختلف ہے۔

وزیر انصاف بشمین نے اس مضحکہ خیز صورتحال کو بھی بیان کیا ہے کہ اس سے متعلق موجودہ قانون کسی بھی شخص کو اسقاط حمل کے بارے میں کسی بھی طرح کی معلومات آن لائن پھیلانے کی اجازت تو دیتا ہے، تاہم طبی پیشہ ور افراد ایسا کرنے سے محروم ہیں۔

وزیر انصاف بشیمن نے برلن میں اس بارے میں بات کرتے ہوئے کہا، ''متاثرہ خواتین کے لیے صورتحال کافی مشکل ہوتی ہے اور ہمیں اسے مزید مشکل نہیں بنانا چاہیے۔

''

انہوں نے کہا کہ اسقاط حمل سے متعلق قانون بذات خود تو تبدیل ہو گا نہیں۔ یہ غیر قانونی ہی رہے گا، لیکن اگر اسے پہلے کے 12 ہفتوں میں انجام دیا جائے تو قابل سزا جرم بھی نہیں ہے۔ اگر ماں کو جسمانی یا نفسیاتی طور پر نقصان پہنچنے کا خطرہ لاحق ہو تو، اس صورت میں اس مدت کے بعد بھی اسقاط حمل قابل سزا جرم نہیں ہے۔

ص ز/ ج ا (روئٹرز، ڈی پی اے)