آتش فشاں، انسانیت کے لیے زندگی کی نوید یا بربادی کا پیغام؟

DW ڈی ڈبلیو اتوار 4 دسمبر 2022 20:00

آتش فشاں، انسانیت کے لیے زندگی کی نوید یا بربادی کا پیغام؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 04 دسمبر 2022ء) جزیرہ ہوائی میں واقع دنیا کے سب سے بڑے فعال آتش فشاں مانا لوا نے 38 سالوں بعد حال ہی میں ایک مرتبہ پھر لاوا اگلنا شروع کر دیا۔ 4,169 میٹر بلند پہاڑ پر پڑنے والی دراڑوں سے لاوا آہستہ آہستہ بہہ رہا ہے لیکن ابھی تک اس بہاؤ سے کسی کو خطرہ نہیں ہے۔ مانا لو سے پھوٹنے والا لاوا ہمسایہ آتش فشاں کیلاویہ سے نکلنے والے لاوے میں شامل ہو رہا ہے۔

کیلاویہ سے لاوے کا بہاؤ ایک سال سے زیادہ عرصے سے جاری ہے جبکہ مانا لوا آخری بار 1984 میں پھٹا تھا۔

ہسپانوی جزیرے کے آتش فشاں کا لاوا بہتا ہوا سمندر کے قریب

جرمن ریسرچ سینٹر فار جیو سائنسز کے ماہر ارضیات تھامس والٹر نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ہم کئی سالوں سے اس لاوے کے پھوٹنے کا انتظار کر رہے تھے۔

(جاری ہے)

1950 کی دہائی تک یہ زمین پر سب سے زیادہ فعال آتش فشاں تھا۔

لیکن اس کے بعد سے اس کے اندرونی حصے میں کچھ تبدیلی آئی ہے۔‘‘

آتش فشاں زرخیز زمین کا سبب

اپنی تباہ کن طاقت کے باوجود آتش فشاں زندگی کی طاقت بھی ہو سکتے ہیں۔ ہوائی مجموعی طور پر 137 جزیروں پر مشتمل ہے۔ یہ سبھی تقریباً 40 سے 70 ملین سال پہلے آتش فشاں سرگرمی کے نتیجے میں تشکیل پائے تھے۔ یہاں کی زمین سطح سمندر کے نیچے متعدد آتش فشاں پھٹنے سے تشکیل پائی تھی۔

میگما زمین کے مینٹل یا نچلی پرت سے پھوٹنے کے بعد بالآخر سمندر کی سطح تک پہنچ جاتا ہے۔

ایک بار جب میگما زمین کی سطح پر پہنچ جاتا ہے تو اسے لاوا کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ہوائی جزائر اور دیگر آتش فشاں جزیروں جیسے آئس لینڈ اور سینٹورینی کے معاملے میں لاوا وقت کے ساتھ اکٹھا ہو کر ٹھنڈا ہوا اور پھر اس نے زمین تشکیل دی۔

آسٹریلیا کی سن شائن کوسٹ یونیورسٹی میں جغرافیہ کے پروفیسر پیٹرک نن نے مانا لوا کے پھٹنے کے بعد میڈیا کو بتایا، ''بحرالکاہل کے تمام جزیروں کی بنیاد آتش فشاں ہیں، جنہوں نے سمندر کے فرش سے آتش فشاں کے طور پر زندگی کا آغاز کیا ہے جیسا کہ گہرے سمندر کی چوٹیوں کے ساتھ اور دیوہیکل کرسٹل پلیٹوں کے بیچ میں، جنہیں اکثر ہاٹ سپاٹ کہا جاتا ہے۔

‘‘

مزید یہ کہ ہوائی کی پودوں سے بھر پور زرخیز زمینیں آتش فشاں پھٹنے کی وجہ سے ہیں۔ آتش فشاں راکھ میگنیشیم اور پوٹاشیم جیسے عناصر سے بھرپور ہوتی ہے جو قدرتی کھاد کے طور پر کام کرتے ہیں۔

آتش فشاں، زمین پر زندگی میں مدد گار

چیک اکیڈمی آف سائنسز میں سیاروں کے سائنس دان پیٹر بروز کے مطابق آتش فشاں سے خارج ہونے والی گیسوں نے سیاروں کو ان کی اپنی تخلیق کردہ زمین سے زیادہ شکل دی ہے۔

آتش فشاں جب پھٹتے ہیں تو فضا میں بڑی مقدار میں پانی کے بخارات اور کاربن ڈائی آکسائیڈ چھوڑتے ہیں۔ طویل مدت میں یہ گرین ہاؤس گیسیں ماحول کو گرم کرنے میں ناقابل یقین حد تک مؤثر ہیں۔ یہ گلوبل وارمنگ میں حصہ ڈالتی ہیں۔

بروز نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''آتش فشاں کے بغیر آپ کے پاس ماحول میں گرین ہاؤس گیسوں کا کوئی مضبوط ذریعہ نہیں ہے، کم از کم ایسے سیاروں پر جہاں انسانوں کے بنائے ہوئے اخراج نہیں ہیں۔

‘‘ انہوں نے مزید کہا، ''آتش فشاں سے گرین ہاؤس گیسوں کا اخراج زمین پر زندگی کے لیے بہت اہم تھا۔ آتش فشاں کے بغیر ہمارے پاس گرین ہاؤس گیسوں کا اثر کمزور ہوگا، جس سے کرہ ارض بہت زیادہ ٹھنڈا ہو جائے گا۔‘‘ بروز نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ درحقیقت مختلف سیاروں پر آتش فشاں کی سرگرمی کی سطح سیاروں کے درجہ حرارت اور زندگی کی میزبانی کرنے کی ان کی صلاحیت سے تعلق رکھتی ہے۔

انہوں نے کہا، ''مریخ پر کوئی فعال آتش فشاں نہیں ہے اور وہاں بمشکل کوئی ماحول ہے، جو اسے انتہائی سرد بناتا ہے۔ زہرہ ماحول میں گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کی وجہ سے ناقابل یقین حد تک گرم ہے۔ لیکن زمین (زندگی کے لیے) بالکل درست ہے۔‘‘

سر زمینِ بلوچستان کا ایک اور عجوبہ، مٹی فشاں یا مڈ وولکینو

زندگی کی بربادی

آتش فشاں کی تباہ کن ساکھ حقیقت سے جڑی ہوئی ہے۔

دنیا بھر میں لاوے پھوٹ پڑنے سے مقامی ماحولیاتی نظام کو بے حساب نقصان پہنچا ہے۔ بعض اوقات لاوا پھوٹنے کا عمل اتنا شدید ہوتا ہے کہ وہ پورے سیارے کی آب و ہوا کو بھی متاثر کر سکتا ہے۔ 1815 میں انڈونیشیا میں ماؤنٹ ٹمبورا میں لاوا پھوٹنے سے 84,000 افراد ہلاک ہوئے لیکن شمالی نصف کرہ میں 1816 کے ''گرمیوں کے بغیر سال‘‘کا سبب بھی بنے۔

لیکن یہ تاریخ کے اوائل میں سپر آتش فشاں پھٹنے کے مقابلے میں کہیں ہلکا ہے۔

74,000 سال پہلے، سماٹرا، انڈونیشیا میں موجودہ جھیل ٹوبا میں ایک بہت بڑا آتش فشاں پھٹنے کی وجہ سے ایک موسم سرما نے جنم لیا، جو دنیا بھر میں چھ سے دس سال تک جاری رہا۔ آتش فشاں موسم سرما کے نتیجے میں زمین کی سطح کے اوسط درجہ حرارت میں کمی واقع ہوئی۔

وجہ؟ آتش فشاں سے نکلنے والی گیسوں اور راکھ کی بڑی مقدار فضا میں پھیل گئی، جس سے سورج کی روشنی زمین تک کم پہنچتی ہے۔

عالمی آب و ہوا پر ٹوبا کے پھٹنے کے اثرات اتنے شدید تھے کہ ماہرین کا خیال ہے کہ اس کے نتیجے میں کل انسانی آبادی میں نمایاں کمی واقع ہوئی۔

انسان، آتش فشاں سے 60 گنا زیادہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج کے ذمہ دار

سائنسدانوں کو امید ہے کہ وہ آتش فشاں کے پھٹنے سے فضا میں خارج ہونے والی گیسوں کی پیمائش کرکے زمین کی آب و ہوا کے مستقبل کو سمجھیں گے۔

بروز نے کہا، ''ایک طویل عرصے سے، ہم یہ جاننا چاہتے تھے کہ آتش فشاں یا انسان گرین ہاؤس گیسوں کے بڑے پروڈیوسر ہیں۔ اب یہ واضح ہے کہ انسان آتش فشاں سے زیادہ گرین ہاؤس گیسیں پیدا کرتے ہیں۔‘‘

بروز کاربن ڈائی آکسائیڈ انفارمیشن اینالیسس سینٹر (سی ڈی آئی اے سی) کے اعداد و شمار کا حوالہ دیتے ہیں، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ انسانی سرگرمیاں ہر سال آتش فشاں سے 60 گنا زیادہ کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج کرتی ہیں۔

ہر آتش فشاں پھٹنے سے گرین ہاؤس گیسوں کی بڑی مقدار خارج ہوتی ہے، لیکن وہ انسانی سرگرمیوں کی وجہ سے ہونے والے اخراج کا مقابلہ کرنے کے لیے بہت کم ہیں۔

جرمن ریسرچ سینٹر فار جیو سائنسز کے ماہر ارضیات تھامس والٹر کے مطابق، ''ہمارے پاس زمین پر 1,500 فعال آتش فشاں ہیں، اس کے علاوہ تقریباً 40,000 سے 50,000 غیر فعال آتش فشاں ہیں جو گیسیں خارج کرتے ہیں۔ لیکن وہ انسانوں کی پیداوار کے مقابلے گرین ہاؤس گیسوں کی بہت کم مقدار پیدا کرتے ہیں۔‘‘

کارلا بلائیکر (ش ر⁄ا ب ا)